بھارت: پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیان پر احتجاج جاری، کئی مسلمانوں کے گھر مسمار

ریاست اترپردیش کی پولیس نےاتوار کو سہارنپور اور پریاگ راج (الہ آباد) میں احتجاج کرنے والے کئی افراد کے مکانات کو ہیوی مشینری کی مدد سے منہدم کیا۔

بھارت کی بعض ریاستوں اور بالخصوص اترپردیش میں جمعے سے اب تک متعدد افراد کے مکانات غیر قانونی قرار دے کر گرا دیے گئے ہیں۔ متاثرہ افراد میں بیشتر وہ ہیں جو پیغمبرِ اسلام کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے متنازع بیان پر احتجاج میں پیش پیش تھے۔ قانونی ماہرین مکانات کے انہدام کے عمل کو غیر قانونی قرار دے رہے ہیں۔

ریاست اترپردیش کی پولیس نےاتوار کو سہارنپور اور پریاگ راج (الہ آباد) میں احتجاج کرنے والے کئی افراد کے مکانات کو ہیوی مشینری کی مدد سے منہدم کیا۔ اس سے قبل کانپور میں بھی مبینہ ملزموں کے مکانات پر بلڈوزر چلا دیا گیا تھا۔

سہارنپور پولیس نے مزمل اور ابو وقار نامی جب کہ کانپور میں محمد اشتیاق نامی شخص کے مکانات گرائے جب کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ منہدم شدہ مکانات غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔

پولیس پر الزام ہے کہ وہ پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے مکانات چن چن کر مسمار کر رہی ہے تاہم حکام نے اس تاثر کی نفی کی ہے۔

ہیوی مشینری کی مدد سے رہائشیوں کے مکانات گرانے کے خلاف سپریم کورٹ، الہ آباد ہائی کورٹ اور مدھیہ پردیش کی عدالتِ عالیہ میں کئی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں جن پر سماعت ہونا باقی ہے۔

پریاگ راج میں ایک سماجی کارکن اور سیاسی جماعت 'ویلفیئر پارٹی آف انڈیا' سے وابستہ جاوید محمد کے دو منزلہ مکان کو منہدم کیا گیا جنہیں ایک روز قبل ہی گرفتار کیا گیا تھا۔ جاوید محمد شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پیش پیش رہے تھے اور ان کی صاحبزادی آفرین فاطمہ بھی ایک سماجی کارکن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی کی سابق طالبہ اور اسٹوڈنٹ لیڈر ہیں۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ جاوید محمد پریاگ راج میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے ماسٹر مائنڈ ہیں اور جب ان کے مکان کو منہدم کرنے سے قبل تلاشی لی گئی تو وہاں سے دو غیر قانونی ہتھیار، دس کارتوس، ایک بڑا چاقو اور ایک کاغذ برآمد ہوا جس پر عدالت کے خلاف قابلِ اعتراض ریمارکس لکھے ہوئے ہیں۔

پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جاوید محمد کے مکان کو ڈھانے سے قبل انہیں نوٹس دیا گیا تھا جب کہ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک روز قبل نوٹس ملا جس پر انہیں قانونی چارہ جوئی کا موقع نہیں دیا گیا۔

جاوید کے اہل خانہ کے مطابق منہدم شدہ مکان جاوید کے نام نہیں بلکہ ان کی اہلیہ پروین فاطمہ کے نام ہے جو کہ ان کے والد نے انہیں تحفے میں دیا تھا۔

حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہیں یہ جان کر سخت صدمہ پہنچا کہ آفرین فاطمہ کے گھر کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت یہ کارروائی ہوئی اور کیا اترپردیش کی حکومت نے ملکی آئین سے خود کو الگ کر لیا ہے۔

بھارت کی بعض ریاستوں اور بالخصوص اترپردیش میں پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیانات کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے مکانات گرانے پر قانونی ماہرین نے سوال اٹھایا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اسد علوی کہتے ہیں اگر کوئی تعمیر غیر قانونی ہے تب بھی اسے قانونی عمل سے گزر کر ہی منہدم کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی غیر قانونی تعمیرات گرانی ہے تو پہلے نوٹس اور وقت دیا جائے گا جس کا جواب رہائشی کی طرف سے دینا ہوگا۔ اگر وہ عدالت سے رجوع کرتا ہے تو عدالت کے فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔

'مکانات گرانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے'

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسد علوی نے کہا کہ اگر ملزم عدالت سے رجوع کرے اور یہ ثابت ہو جائے کہ مسلمہ قانونی عمل اختیار کیے بغیر انہدامی کارروائی کی گئی ہے تو اس کارروائی میں شامل افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بہت سے معاملات میں از خود نوٹس لے کر کارروائی کرتی ہے۔ اگر اس قسم کے واقعات زیادہ ہونے لگیں اور سپریم کورٹ یہ محسوس کرے کہ اسے از خود ایکشن لینا چاہیے تو وہ ایکشن لے سکتی ہے۔

اسد علوی کے بقول لوگوں کے مکانات گرانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔ اگر کسی فرد سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اسے اس جرم کی مقرر کردہ سزا ہو گی کسی دوسرے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

SEE ALSO: بی جے پی رہنما کا متنازع بیان، کیا اسلامی دنیا اور بھارت کے رشتے متاثر ہو رہے ہیں؟

الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نےمقامی انگریزی روزنامے 'انڈین ایکسپریس' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے گھر گرانا مکمل طور پر غیر قانونی عمل ہے۔یہ کوئی تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کا معاملہ ہے۔

ان کے بقول اگر آپ یہ مان بھی لیں کہ عمارت غیر قانونی تعمیر ہوئی ہے،تب بھی کسی عمارت کو اتوار کے روز منہدم کرنےاور ملزم کے حراست میں ہونے پر اس کی املاک گرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی ایک شخص نے کوئی جرم کیا ہے تو صرف اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن جب کوئی مکان منہدم کر دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گھر کے تمام افراد کو سزا دی گئی ہے، حالانکہ سب کا قصور نہیں تھا۔ اس لیے ایسی کارروائیاں یقینی طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔

مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے انہدامی کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ خود جج بن گئے ہیں اور وہ کسی کو بھی مجرم قرار دے کر اس کا مکان منہدم کر دیں گے۔

پیر کے روز دہلی میں طلبہ یونین کی جانب سے آفرین فاطمہ کے مکان کے انہدام کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور اس کارروائی کی مذمت کی گئی۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت: مسلمانوں کے گھر مسمار کرنے کے خلاف احتجاج اور گرفتاریاں

بھارتی میڈیا کے مطابق اس احتجاج میں کئی طلبا تنظیمیں جن میں سٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اور فریٹرنٹی موومنٹ نے حصہ لیا۔پولیس نے درجنوں طلبا کو گرفتار بھی کیا۔

دوسری جانب اترپردیش کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے 10 جون کو ماحول خراب کرنے کی کوشش کی تھی تاہم پرتشدد واقعات میں ملوث 306 افراد کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے لوگوں کے مکانات کے انہدام کی کارروائی سے متعلق دعویٰ کیا کہ اس معاملے میں تمام قانونی ضابطے پورے کیے گئے ہیں۔

انہوں نے اس الزام کی تردید کی پولیس مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ دو فریقوں کا معاملہ نہیں بلکہ پولیس سے ٹکراؤ کا معاملہ ہے۔

پرشانت کمار کہتے ہیں پولیس نے مذہبی شخصیات کے ساتھ نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ ان کے بقول مذہبی شخصیات تعاون کر رہی ہیں لیکن کچھ لوگ مذہب کے نام پر لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔کسی بھی شخص کو کسی بھی مذہب کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر کسی نے توہین کی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔