انسداد دہشت گردی اور تنازعات کے حل کے لیے ثالثی سے متعلق قطر کے خصوصی ایلچی مطلق بن ماجد القحطانی نے ویب کانفرنس کے دوران کہا کیا ہے کہ بھارت کے وفد نے خاموشی کے ساتھ قطر کا دورہ کیا ہے جس کا مقصد دوحہ میں موجود طالبان کی سیاسی قیادت سے ملاقات کرنا تھا۔
آن لائن کانفرنس امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ’عرب سینٹر‘ اور دوحہ میں ’سینٹر فار کنفلکٹ اینڈ ہیومنٹیرین اسٹڈیز‘ کے زیرِ اہتمام منعقد کی گئی۔کانفرنس کا عنوان ’امریکہ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں امن کی صورتِ حال‘ تھا۔
قطر کے خصوصی ایلچی نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ ہر شخص یہ بات محسوس کر رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی بالادستی یا ان کی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے بلکہ طالبان مستقبل کے افغانستان کا اہم حصہ ہوں گے۔ ان کے بقول بھارت کا افغانستان کے فریقین کے ساتھ مذاکرات یا رابطوں کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔
بھارت کے اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق بھارت کی وزارتِ خارجہ نے القحطانی کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے جب کہ اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا کہ کیا دوحہ میں طالبان کی سیاسی قیادت سے بھارت کا کوئی رابطہ ہوا ہے۔
رپورٹس کے مطابق افغان صدر اشرف غنی، جو کہ جمعے کو امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے واشنگٹن میں ملاقات اور افغانستان سے افواج کے انخلا کے بعد کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کرنے والے ہیں، تین روزہ کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
قطر کے خصوصی ایلچی نے کہا کہ یہ بات ذہن نشین کرنا اہم ہے کہ اس وقت ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اگر اس وقت کسی بھی قسم کی کوئی بات چیت ہوتی ہے تو وہ پُرامن انداز میں اختلافات کو دور کرنے کے لیے افغان فریقین کی حوصلہ افزائی کی خاطر ہونی چاہیے۔
SEE ALSO: ’پاکستان امریکہ کو افغانستان میں کارروائیوں کے لیے اڈے ہرگز نہیں دے گا‘ان کے مطابق فریقین کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ مذاکرات کریں۔ قطر سمیت کوئی بھی ملک ایسے کسی گروہ کو تسلیم نہیں کرے گا جو بزور طاقت ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی بھی قسم کی بات چیت کا افغانستان میں مصالحت کے عمل سے تعلق کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو ایک ملک کی حیثیت سے دوسرے ممالک کی درپردہ جنگ کا مقام نہیں بننا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک مستحکم افغانستان، پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے۔ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے اور ہم جانتے ہیں کہ بھارت نے افغانستان کی بہت مالی مدد کی ہے اور وہ بھی پُرامن اور مستحکم افغانستان کے حق میں ہے۔
’طالبان کے ساتھ باضابطہ طور پر بات ہو رہی ہے‘
سابق سفارت کار پناک رنجن چکرورتی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے طالبان کے ساتھ کچھ روز قبل بات چیت شروع کی تھی۔ پہلے غیر رسمی بات چیت ہوئی مگر اب باضابطہ طور پر بات ہو رہی ہے۔
ان کے بقول اس بات چیت کا مقصد یہ جاننا ہے کہ طالبان کی آگے کی حکمتِ عملی کیا ہوگی کیوں کہ اب بھی پُر تشدد کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ افغانستان میں اس وقت جو حکومت ہے اس کے ساتھ طالبان کس قسم کی مفاہمت کرنا چاہتے ہیں۔
سابق سفارت کار پناک رنجن چکرورتی نے کہا کہ بھارت کو اس بات کی تشویش ہے کہ کہیں پہلے کی طرح ایک بار پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع نہ ہو جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج بھی القاعدہ اور داعش کے ساتھ طالبان کے تعلقات ہیں لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ اپنے تعلق کو کس حد تک رکھتے ہیں۔ حالاں کہ طالبان نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جب وہ حکومت میں آئیں گے تو دہشت گردی کی حمایت نہیں کریں گے۔
پناک رنجن نے مزید کہا کہ طالبان نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ موجودہ افغان حکومت کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے لیکن دشواری یہ ہے کہ وہ انتخابات نہیں چاہتے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلامی خلافت قائم کریں گے۔
ان کے خیال میں اگر طالبان نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی تو صورتِ حال پھر خراب ہو جائے گی کیوں کہ تاجک، ہزارہ، ازبک اور دیگر نسلی گروہ پھر ان کے خلاف ہو جائیں گے اور خانہ جنگی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوحہ میں موجود طالبان کی سیاسی قیادت کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے مبینہ جارحانہ مؤقف کو کچھ نرم کیا ہے لیکن اگر انہوں نے پہلے کی طرح اپنی سخت گیر پالیسی جاری رکھی تو حالات پھر خراب ہو جائیں گے۔
ان کے مطابق بھارت اسی تشویش کے پیشِ نظر طالبان سے بات چیت کر رہا ہے
SEE ALSO: لڑائی، حملے، مذمتیں، مذاکرات، افغانستان میں ہو کیا رہا ہے؟اس سے قبل بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک نیوز بریفنگ میں ان رپورٹس کے حوالے سے کہ مودی حکومت طالبان سے براہِ راست رابطے میں ہے، کہا تھا کہ نئی دہلی افغانستان میں تعمیر و ترقی کے لیے اپنے دیرینہ عہد کی تکمیل کی خاطر مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں ہے۔
رپورٹس کے مطابق بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے نو جون کو کویت جاتے ہوئے دوحہ میں مختصراً قیام کیا تھا اور انہوں نے وہاں قطر کے وزیرِ خارجہ، قومی سلامتی کے مشیر اور افغانستان میں مصالحت سے متعلق امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی تھی۔
ایس جے شنکر نے 15 جون کو کینیا جاتے ہوئے بھی دوحہ میں مختصراً قیام کیا تھا۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ چوں کہ قطر افغانستان میں امن عمل میں شامل ہے لہٰذا وزیرِ خارجہ کی بات چیت افغانستان کے معاملے پر بھی ہوئی تھی۔ زلمے خلیل زاد اس وقت دوحہ میں تھے لہٰذا انہوں نے ایس جے شنکر سے ملاقات کی اور انہیں افغانستان کی تازہ صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
رپورٹس کے مطابق ان دوروں کے وقت ایس جے شنکر کے دوحہ میں ٹھیرنے اور بات چیت کے سلسلے میں بھارتی حکومت کی جانب سے پہلے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی حکومت نے امریکہ اور نیٹو افواج کی واپسی کے پیشِ نظر ملا برادر سمیت افغان طالبان کے مختلف گروپوں اور رہنماؤں سے رابطے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
مبصرین کے نزدیک اس بیان کو نئی دہلی میں شائع ہونے والی ان حالیہ رپورٹس کی پہلی باضابطہ تصدیق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کر رہا ہے۔