گائے کے گوشت پر تناؤ، وزیراعظم مودی کا اتحاد و اتفاق پر زور

ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ قوم صرف اسی صورت خوشحال ہو گی "جب ہندو اور مسلمان متحد ہوں" اور آپس میں لڑنے کی بجائے غربت کے خلاف لڑیں۔

بھارت میں حالیہ دنوں میں گائے کے گوشت کا معاملہ بظاہر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی وجہ بنا ہے اور اس نے وزیراعظم نریندر مودی کو یہ اپیل کرنے کرنے پر مجبور کیا ہے کہ ملک میں آباد مختلف مذاہب کے ماننے والے اتفاق و اتحاد پیدا کریں۔

گزشتہ ہفتے دہلی کے قریب واقع علاقے دادری میں 50 سالہ مسلمان لوہار محمد اخلاق کو مشتعل ہجوم نے اس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ جان کی بازی ہار گیا جب کہ اس کا جواں سال بیٹا شدید زخمی ہوا۔

یہ واقعہ اس افواہ کے بعد پیش آیا کہ اخلاق نے خاندان نے گائے کا گوشت کھایا ہے۔ بعد ازاں یہ خبریں بھی سامنے آئی تھی کہ اخلاق کے گھر سے ملنے والے گوشت کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا یہ وہ بکرے کا تھا۔

ہندو مذہب کے پیروکار گائے کو مقدس مانتے ہوئے اس کی پوجا کرتے ہیں اور اسے ذبح کرنا یا اس کا گوشت کھانا صریحاً ممنوع ہے۔

رواں ہفتے بہار میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے اس واقعے کا ذکر کیے بغیر کہا کہ قوم صرف اسی صورت خوشحال ہو گی "جب ہندو اور مسلمان متحد ہوں" اور آپس میں لڑنے کی بجائے غربت کے خلاف لڑیں۔

"ملک کو متحد ہونا ہو گا۔ ہم آہنگی، بھائی چارہ اور امن ہمیں ترقی کی طرف لے کر جائے گا۔"

مودی کا یہ بیان کچھ تاخیر سے سامنے آیا ہے جب کہ گائے کے گوشت سے متعلق واقعات، حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض ارکان اور گائے بچاؤ تحریک کے کچھ کارکنوں کی گرفتاری سے تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ممبئی سے تعلق رکھنے والے مصنف اور انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن رام پنیانی کہتے ہیں کہ دائیں بازو کے ہندو گروپ گائے کو ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے کے معاملے کو دیگر مذاہب کے لوگوں کے محدود کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

"گائے سے متعلق بی جے پی کے خیالات مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کا اس کا دیرینہ ایجنڈا ہے کیونکہ وہ سماجی کو برہمن بنانا چاہتے ہیں جہاں گوشت خوری ممنوع ہو۔"

اس معاملے پر اب حکام اپنے موقف میں کسی قدر لچک پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ جمعرات کو صدر پرنب مکھرجی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ برداشت اور مل جل کر رہنا ہی بھارتی معاشرے کے بنیادی اصول ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذہب کو "طاقت کے بھوک اور افراد پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے" استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔