بھارت اسرائیل اسٹریٹجک تعلقات

یروشلم

دورے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پہلی مرتبہ بھارت نے اسرائیل کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے فلسطین کو اس علاقے کے دورے سے الگ کر دیا ہے

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی تین روزہ دورے پر اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔ یہ کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ اسرائیل ہے۔ دورے سے قبل بھارت میں اسرائیلی سفیر ڈینیل کارمون نے اس دورے کو ’’انتہائی غیر معمولی اور اہم‘‘ قرار دیا تھا۔

مودی یروشلم کے کنگ ڈیوڈ ہوٹل کے اُسی لگژری سویٹ میں قیام کریں گے جس میں گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹھہرے تھے۔

اگرچہ بھارتی وزیر اعظم کے دورے کی تیاریاں امریکی صدر کے دورے سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر کی گئی ہیں۔ تاہم، سیکورٹی کے حوالے سے انتظامات میں خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ امریکی صدر کے دورے کے دوران پورا کنگ ڈیوڈ ہوٹل خالی کروا لیا گیا تھا اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو ہوٹل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن، نریندر مودی کے دورے کیلئے صرف اوپر والی منزلوں اور پارکنگ کو خالی کرایا گیا ہے۔

بھارت اسرائیل اسٹریٹجک تعلقات کا باقاعدہ آغاز 1962 میں ہوا جب بھارت چین جنگ کے دوران اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نے باضابطہ طور پر اسرائیل سے ہتھیار بھیجنے کی درخواست کی۔ نہرو نے اسرائیل کے وزیر اعظم بین گورین کو پیغام بھیجا کہ جس بحری جہاز میں ہتھیار بھارت روانہ کئے جائیں، اُن پر اسرائیل کا جھنڈا نہ لہرایا جائے کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک سے بھارتی تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ تھا۔

بھارت کیلئے خلیجی ممالک سے تعلقات وہاں آباد بھارتی شہریوں کی طرف سے ترسیلات زر کے باعث بہت اہمیت رکھتے تھے۔ تاہم، بین گورین نے اس بات سے انکار دیا اور اصرار کیا کہ ہتھیاروں سے لدے جہاز پر اسرائیل کا جھنڈا ضرور لہرایا جائے گا۔ بھارت نے جب اسرائیلی جھنڈے کے ساتھ اسرائیلی ہتھیار قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو بین گورین نے یہ ہتھیار بھارت روانہ کر دئے۔

1971 کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران بھارت اسرائیل تعلقات کو مزید استحکام حاصل ہوا۔ سری ناتھ راگھون نے اپنی کتاب ’1971‘ میں اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مشیر پی این ہسکر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگرچہ اسرائیل بھارت کو براہ راست ہتھیار فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر نے ایران کو بھجے گئے ہتھیاروں سے لدے جہاز کو بھارت کی جانب موڑ دیا۔

اس جنگ کے دوران اسرائیل نے جاسوسی کے شعبے میں بھی بھارت کو تعاون فراہم کیا۔ اس کے جواب میں گولڈا میئر نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرے۔

تاہم، اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے میں بھارت کو مزید 21 برس کا عرصہ لگا۔ بالآخر بھارت نے فلسطینی راہنما یاسر عرافات کو اعتماد میں لیتے ہوئے 1992 میں اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یاسر عرفات اُس وقت بھارت کے دورے پر تھے اور بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ سے ملاقات کے بعد اُنہوں نے بیان دیا کہ اسرائیل میں سفارتخانہ قائم کرنا اور سفارتی تعلقات برقرار رکھنا بھارت کا اپنا استحقاق ہے اور وہ اس کا احترام کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی امریکہ نے بھی بھارت پر دباؤ ڈالا کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعاون بڑھائے۔ بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک سوویت یونین تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھارت کو ہتھیاروں کے حصول کی خاطر نئی منڈیوں کی تلاش تھی جس کیلئے اُس کی نظر امریکہ پر پڑی۔ تاہم، امریکہ نے ہتھیار فراہم کرنے کیلئے یہ شرط عائد کی کہ بھارت اسرائیل کو اپنی خارجہ پالیسی میں مناسب اہمیت دے۔ اُنہی دنوں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امریکی کوششوں سے امن کا تاریخی معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں یاسر عرفات، شمعون پیریز اور یتزک رابن کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ یوں، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے یہ وقت نہایت مناسب ثابت ہوا اور بھارت نے اس مقصد کیلئے یاسر عرفات کو اعتماد میں لیتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور خلیجی مسلمان ممالک کا تعاون بھی حاصل کر لیا۔

لہذا، گولڈا میئر نے جو کچھ بھارت سے 1971 میں تقاضا کیا تھا وہ بالآخر 29 جنوری 1992 کو ممکن ہوگیا۔ بعد میں بھارت نے جب 1998 میں جوہری دھماکے کئے تو امریکہ نے بھارت پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کر دیں۔ لیکن، بھارت ان پابندیوں سے متاثر ہونے سے بچ گیا جب اسرائیل کے ذریعے بھارت کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی جاری رہی۔

پھر 1999 کی کارگل کی جنگ کے دوران بھارت اسرائیل فوجی تعلقات اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔ اسرائیل نے بھارت کو بھاری توپیں، نگرانی کرنے والے ڈرون اور لیزر گائیڈڈ میزائلوں کے ساتھ ساتھ جاسوسی کے شعبے میں تعاون بھی فراہم کیا جس سے بھارت کارگل کی جنگ سے کامیابی کے ساتھ نمٹ سکا۔

اگلے برس 2000 میں بھارت کے وزیر داخلہ ایل کے آڈوانی اور وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا، جس سے اسرائیل کیلئے بھارت کے وزارتی سطح کے دوروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

سن 2000 میں اُس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایرئل شیرون سرکاری دورے پر بھارت پہنچے۔ یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے بھارت کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ اس دورے کے اختتام پر دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر اسرائیل کے نائب وزیر اعظم یوسف لیپڈ نے باضابطہ اعلان کیا کہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان دفاعی شعبے میں قریبی تعاون موجود ہے اور اسرائیل بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔

اس کے بعد گزشتہ برس بھارتی وزیر خارجہ ششما سواراج نے اسرائیل کے دورے پر روانگی کے موقع پر دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قریبی تعلقات گزشتہ 25 برسوں میں پروان چڑھے ہیں اور انہیں تقویت دینے کا سہرا وزیر اعظم نرندر مودی کے سر ہے اور وہ پہلے بھارتی وزیر اعظم ہیں جو اسرائیل کا باقاعدہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔

اس دورے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پہلی مرتبہ بھارت نے اسرائیل کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے فلسطین کو اس علاقے کے دورے سے الگ کر دیا ہے۔

اس سے قبل اکتوبر 2015 میں جب بھارت کے صدر پرناب مکھرجی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا تو وہ روایت کے مطابق پہلے فلسطین گئے تھے اور اُس کے بعد اسرائیل پہنچے تھے۔ تاہم، نریندر مودی کے اس دورے میں فلسطین شامل نہیں ہے۔