پاکستان اور بھارت کے ٹیلی وژن چینلز کی سکرینز پر اگر کچھ نمایاں ہے تو وہ ہے اس وقت کرکٹ، کرکٹ اور کرکٹ۔ ہر چینل اور ہر رپورٹر دور کی کوڑیاں لا رہا ہے۔ ماضی کے حوالے تلاش کر رہا ہے۔ اپنے اپنے کھلاڑیوں کو کوئی شاہین تو کوئی کرکٹ کے راج کمار گردان رہا ہے۔ موہالی کے ہوٹلوں کی رونقوں وہاں پر ملنے والے کھانوں سے لے کر کھلاڑیوں کے ہیراسٹائلزو ہیرسٹائلسٹ سے لے کر وکٹ کی خامیوں خوبیوں اور کھلاڑیوں کے پلس مائنسز سب پر خصوصی پیکجز بنائے جا رہے ہیں۔ دونوں اطراف کے ٹیلی وژن چینلز پر کوئ چیز مشترک ہے تو وہ ہے پروڈکشن سٹائل ۔۔۔۔ ہر پیکچ کے بیک گراوٴنڈ میں گانے سنائی دے رہے ہیں اور زیادہ تر گانے انڈین ہیں اور دونوں اطراف میں وہی گانے رپورٹوں میں شامل کرتے ہوئے شائقین کو لبھایا جا رہا ہے۔
اس صورتحال میں جب کرکٹ کے اس میچ کو ’’مدر آف آل ٹائم فائنلز‘‘ کہا جا رہا ہے، سیاسی قیادتیں ایک ساتھ میدان میں پدھار رہی ہیں، کھلاڑیوں پر دباو یقینی ہوگا۔ اور اس بات کا اظہار دونوں ٹیموں کے کھلاڑی اور منیجمنٹ کر رہے ہیں۔ بھارت کی کرکٹ ٹیم کے کپتان مہندرا سنگھ دھونی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم پر اندرونی دباوٴ زیادہ ہو گا کیونکہ ہم سے یہ چاہا جا رہاہے کہ بھلے فائنل نہ جیتیں سیمی فائنل میں ضرور فتح حاصل کریں‘‘ ۔۔ یہی حال اوریہی خواہش پاکستان کے شائقین کرکٹ کی ہے۔ اگرچہ پاکستانی ٹیم کے مینیجر انتخاب عالم یہ کہتے ہوئے امیدوں کو ایک حد میں اور اعتدال میں رکھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایک ٹیم کو اس میچ میں ہارنا ہے اور ایک کو جیتنا، لہذا اس سیمی فائنل کو کھیل سمجھا جائے نہ کہ جنگ۔
پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ورلڈ کپ 2011 کے دوسرے سیمی فائنل نے تماشائیوں کے جوش و جنوں کے اعتبار سے بظاہر پورے ایونٹ پر غلبہ حاصل کر لیا ہےاورایک لمحے کے لیے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے لوگ بھول گئے ہیں کہ اس سیمی فائنل سے پہلے 29 مارچ کو ایک اور سیمی فائنل بھی کھیلا جانا ہے اور وہ بھی دونوں ٹیموں کے لیے اتنا ہی اہم ہے۔ منگل کو میزبان سری لنکا اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے درمیان یہ میچ کھیلا جا رہا ہے۔ کرکٹ کے بطور کھیل حسن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ٹی وی چینلز اس میچ کو بھی اہمیت دیں۔ اس سے نہ صرف کھیل کے ساتھ انصاف ہو گا بلکہ پاکستان اور بھارت کی ٹیموں پر امیدوں کے بوجھ میں بھی کمی آئے گی۔
پہلے سیمی فائنل میں کرکٹ پنڈٹس سری لنکا کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں مگر نیوزی لینڈ کے لیے ایسی پیش گوئیوں میں اس لیے بھی وزن نہیں رہا ہو گا کہ ماہرین تو جن ٹیموں کو چیمپین بننے کے لیے فیورٹ قرار دے رہے تھے ان میں سے تین کی واپسی کی ٹکٹیں کٹ چکیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ کرکٹ میں کیلکولیشنز اورپچھلے ریکارڈ اہمیت رکھتے ہوں گے مگر کہیں نہ کہیں ’کرکٹ ‘ بھی اپنا کام دکھاتی ہے جو ہر اس ٹیم اور کھلاڑی کے ساتھ ہوتی ہے جو میچ کے دن خوب محنت کرتا ہے ، مخالف کی خامیوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کنڈیشنز کو ایکسپلائٹ کرتا ہے۔ 2007 کے ورلڈ کپ میں آئرلینڈ نے پاکستان اور بنگلہ دیش نے بھارت کو اسی طرح پہلے مرحلے میں ہی آوٹ کر دیا۔
آل رائونڈرز سے بھری کیوی ٹیم ورلڈ کپ مقابلوں میں سب سے زیادہ فتوحات کے اعتبار سے آسٹریلیا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اورچھٹی بار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کر رہی ہے لہذا فارم اینڈ فٹننس کے مسائل سے دوچار یہ ٹیم جس سپرٹ سے کھیل رہی ہے ایسا نہیں ہے کہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی اسے لوزر کہا جا سکے۔ لیکن کپتان سنگا کارا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا مقابلہ کسی کمزور ٹیم سے نہیں ہے۔ ٹیم کے مایہ ناز بلے بازاور پاکستاں کے خلاف میچ کے ہیرو راس ٹیلر کی نظریں، جنوبی افریقہ جیسی کلینیکل سائیڈ کو ہرانے کے بعد اب فائنل پر ہیں۔ اگر کیوی ٹیم سیمی فائنل میں سری لنکا کو شکست دینے میں کامیاب ہوتی ہے تو پہلا موقع ہو گا کہ وہ کسی ورلڈکپ کے فائنل میں پہنچے گی جہاں اس کا مقابلہ دوسرے سیمی فائنل کی فاتح پاکستانی یا بھارتی ٹیم سے ہوگا۔
اب بات دوسرے سیمی فائنل میں ٹیموں کو حاصل ایڈوانٹجز اور ڈس ایڈوانٹیجز۔۔۔۔اور ماہرین کی توقعات کی۔
ایک بات جو ہرایک کی زبان پر ہے وہ یہ کہ بھارت کی بیٹنگ پاکستان سے مضبوط ہے اور پاکستان کی باولنگ بھارت سےاچھی ۔ اس لحاظ سے ٹیمیں بلیک اینڈ وائٹ میں توبرابر کی دکھتی ہیں۔ بھارت کی ٹیم کو اپنی کارکردگی میں تسلسل کا ایڈوانٹج ہے تو پاکستان کے پاس میچ ونرز زیادہ ہیں اور بڑے میچوں میں جیت کے بہتر تناسب کا نفسیاتی فائدہ بھی۔ کوئی شبہ نہیں کہ کھلاڑیوں کو اس میچ میں اپنے اعصاب کو مضبوط رکھنا ہو گا۔ دباو برداشت کرنا ہوگا اور آخر جیتے گی وہی ٹیم جس نے اس دن اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان ٹیم کو اس اعتبار سے برتری حاصل ہے کہ اس کے پاس میچ ونرز زیادہ ہیں اور گیم فنشرزاچھے اور تجربہ کار ہیں۔ بھارت کی ٹیم کا ٹاپ آرڈر مضبوط اور ان فارم ہے اس وجہ سے اس کا پلہ بھاری ہے۔ میچ ونرکھلاڑی یووراج سنگھ ہے جو اس ٹورنامنٹ میں کافی اچھی فارم میں ہیں اور مین آف دا ٹورنامنٹ کے اعزاز کے مضبوط ترین امیدوار ہیں۔
باولنگ میں بھارت کا فاسٹ باولنگ کا شعبہ صرف ظہیرخان پر انحصار کر رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان بھی اس شعبے میں صرف عمر گل پر انحصار کر رہا ہے۔ عبدالرزاق سے زیادہ باولنگ نہیں کرائی گئی مگر اعدادوشمار کے اعتبار سے خاصے متاثرکن رہے ہیں۔ شعیب اختر اور وہاب ریاض میں سے ایک بھی ٹیم میں شامل ہوگا۔
بات اگر سپن باولنگ کی ہو تو بھارت کوآن پیپر تو چار سے زائد سپن باولر کی مدد حاصل ہو گی مگر اس کے لیے پریشانی کی بات یہ ہو سکتی ہے کہ اس ایونٹ میں سپن کے شعبے میں اس کے کامیاب باولر یووراج سنگھ ہیں جو کہ ’یوٹیلیٹی‘ باولر ہیں۔ ہربھجن سنگھ اچھی فارم میں نہیں ہیں۔ اور پاکستانی ٹیم میں کم از کم تین کھلاڑی ایسےہیں جو سپنرز کے خلاف تیزرفتاری سے رنوں کے انبار لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کے سپن باولنگ کے شعبے پر نظر ڈالیں تو کپتان شاہد آفریدی نے ایک سپن باولر کی حیثیت سے سب کو حیران کر دیا ہے اور وہ اس ٹورنامنٹ میں اب تک سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باولر ہیں۔ سعید اجمل کی اپنی ایک کلاس ہے اور جن میچوں میں بھی انہیں موقع ملا ہے انہوں نے ڈیلیور کیا ہے۔ حفیظ بہترین یوٹیلیٹی سپنر ثابت ہو رہے ہیں۔
موہالی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق، وکٹ بلے بازی کے لیے سازگار ہو سکتی ہے اور فاسٹ باولر کے لیے بھی اس میں کچھ جان ہو گی۔ اس اعتبار سے دونوں ٹیموں کی بیٹنگ اور باولنگ کی طاقت کو جانچنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے موجودہ کمبی نیشن میں یہ ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 320 یا 330 سے کم ہدف دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے باولنگ اٹیک کے خلاف بنگلہ دیش، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ نے بڑے رنز سکور کر کے یہ ثابت کر دیا ہے۔ اور پاکستان کے بیٹنگ آرڈر میں آفریدی جیسے بلے باز کا 8ویں نمبر پر آنا ایک صاف پیغام لیے ہوئے ہے۔
اور اگر پاکستان یہاں پہلے بیٹنگ کرتا ہے اور اگر 280 یا 290 سے کم رنز سکور کرتا ہے تو یہ بات اس کے لیے خطرے سے خالی نہ ہو گی۔ ان اہداف سے اوپر دونوں ٹیمیں کافی حد تک محفوظ ہوں گی۔
پاکستان کے کرکٹ ماہرین بشمول سابق فاتح کپتان عمران خان مصر ہیں کہ اگر بیٹنگ وکٹ ہے تو پھر تو اوسط درجے کا بلے باز بھی رن کر سکتا ہے خاص طور پر بھارت کے باولنگ اٹیک کے خلاف لہذا پاکستان کو چاہئے کہ وہ باولنگ اسکواڈ بہتر کرے۔ وہ تجویز دیتے ہیں کہ عمرگل کے ساتھ شعیب اختر کی موجودگی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ سابق کپتان وسیم اکرم اور راشد لطیف بھی یہی مشورہ دے رہے ہیں۔
بھارت کے نقطہ نظر سے مبصرین کا ماننا ہے کہ یووراج سنکھ میچ ونر ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح وریندر سہواگ اور سچن ٹندولکر پر مشتمل ان فارم اوپننگ بلے بازوں کی جوڑی اپنی ٹیم کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ روی شاستری، انیل کمبلے، سنیل گواسکر، نوجوت سنگھ سدھو اور پاکستان کے سابق کھلاڑی ظہیر عباس انہی کھلاڑیوں کے کردار کو بڑی اہمیت دینے ہیں۔ جبکہ بھارت کے سنیل گواسکر یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ پاکستانی کھلاڑیوں کو ممبئ میں کھیلنا بہت پسند ہے اور وہ ممبئی پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔ ممبیئ ہی وہ مقام ہے جہاں دو اپریل کو دنیائے کرکٹ کے نئے چیمپین کا فیصلہ ہو گا۔
عمران خان کہتے ہیں ک عمر گل پاکستان کے لیے ’’ترپ کا پتا‘‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔ سپن کو کھیلنے میں مہارت رکھنے والے بھارت کے بلے بازوں کے خلاف فاسٹ اٹیک کو مضبوط کرنے کے مشورے کھلاڑیوں ہی نہیں عوامی رائے عامہ پر مبنی جائزہ رپورٹوں میں بھی آ رہے ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال میں پاکستانی ٹیم مینیجمنٹ ہو سکتا ہے شعیب کو موقع دے نہ دے وہاب ریاض کی جگہ نئے باولر جنید خان کو ٹیم میں شامل کر کے سب کو چونکا سکتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے ٹورمینیجمنٹ ان مشوروں کو درخوئےاعتنا سمجھتی ہے یا اپنے ہی گیم پلان کے ساتھ میدان میں اترتی ہے۔ ویسے ٹیم مینیجمنٹ نے کھلاڑیوں کو اخبار اور ٹی وی سے دور رہنے کامشورہ دیا ہے جو کہ پاکستان کے نقطہ نظر سے دانشمندانہ ہے اور کھلاڑیوں کے اعصاب کو مضبوط رکھنے میں مددگار ہو سکتا ہے ۔۔اور سیمی فائنل تو بظاہر گیند اور بلے کی جنگ سے زیادہ اعصاب کی جنگ کی صورت ہی اختیار کر گیا ہے۔۔۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: