انڈونیشیا کے صدر سوسیلو بام بانگ یودھویونو منگل کے روز برما کے سرکاری دورہ پر روانہ ہوں گے۔ انڈونیشیا اور برما میں بہت سی باتیں مشترک ہیں، دونوں ملکوں میں ایک زمانے تک فوجی آمریت قائم رہی اور آج کل دونوں ملکوں کے سربراہ سابق جنرل ہیں۔
جکارتہ —
انڈونیشیا کے صدر سوسیلو بام بانگ یودھویونو 2006 کے بعد پہلی بار منگل کے روز برما کے سرکاری دورہ پر روانہ ہوں گے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب برما میں نسلی اور مذہبی تشدد عروج پر ہے اور ان دونوں جنوبی مشرقی ملکوں کے دیرینہ تعلقات آزمائشی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
انڈونیشیا اور برما میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ملکوں میں ایک زمانے تک فوجی آمریت قائم رہی اور آج کل دونوں ملکوں کے سربراہ سابق جنرل ہیں۔ دونوں نے آمریت سے جمہوریت تک کا تکلیف دہ سفر مکمل کیا ہے اور تبدیلی کے اس عمل کے دوران دشواریوں کا مقابلہ کیا ہے۔
دانشور اور سرکاری مشیر کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے ایک جیسے حالات کی وجہ سے ان میں یہ سمجھ بوجھ پیدا ہوئی ہے کہ تبدیلی لانے میں وقت لگتا ہے۔ اسی احساس کی وجہ سے انڈونیشیا نے اصلاحات کا عمل تیز کرنے کے لیے برما پر دباؤ ڈالنے سے اعتراض کیا ہے۔
ٹیکیو فیزاسیا صدر یودھویونو کے اسسٹنٹ برائے بین الاقوامی امور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ظاہر ہے کہ جب ملک اپنے سیاسی نظام کی اصلاح کا عمل شروع کرتے ہیں جیسا کہ ماضی میں انڈونیشیا نے کیا تھا تو انہیں شروع میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرقہ وارانہ تصادم ہو تا ہے، تشدد اور دوسری چیزیں ہوتی ہیں جو جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ برما میں اس مرحلے پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوریت کی نئی حقیقتوں کا ایک جز ہے۔’’
1998 میں جب زبردست احتجاجوں کے بعد مطلق العنان صدر سوہارتو کا تختہ الٹ دیا گیا تو انڈونیشیا نے فوج کو حکومت سے الگ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی انڈونیشیا نے برما کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اس ملک کی فوجی حکومت کو پابندیاں ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
برما کے حالات پر نظر رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ برما میں بڑی اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔ برما کے صدر تھین سین نے دو سال قبل حکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد میڈیا پر پابندیاں نرم کر دی ہیں سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور باغی گروپوں کے ساتھ جنگ بندی کے سمجھوتے کرنے میں مدد دی ہے۔
لیکن برما میں جہاں کی آبادی کی اکثریت بدھسٹ ہے نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ہیں اور یوں وہ تمام اصلاحات جو اب تک کی گئی ہیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوامِ متحدہ نے گذشتہ جون میں بدھوں اور مسلمانوں کے درمیان مغربی راکین صوبے میں فسادات پھوٹ پڑنے کے بعد برما کی حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اور زیادہ اقدامات کرے۔
لیکن تشدد اور زیادہ پھیل گیا ہے اور 100,000 سے زیادہ افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
تشدد سے بچ کر فرار ہونے والے بہت سے لوگ بیرونی ملکوں میں چلے گئے ہیں اور کچھ نے انڈونیشیا میں پناہ لی ہے ۔ فی الحال، انڈونیشیا کی حکومت کی کوشش ہے کہ برما کی حکومت پر نکتہ چینی کے بجائے ، اس کے ساتھ بات چیت کی جائے ۔
سنگا پور کے انسٹیٹویٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشن سٹیڈیز میں ایک محقق مو تھازر کہتے ہیں کہ انڈونیشیا نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ وہی ہے جس پر انڈونیشیا آسیان میں عمل کرتا رہا ہے۔
‘‘آسیان کے ایک بانی رکن کی حیثیت سے انڈونیشیا خاموش سفارتکاری کا زبردست حامی ہے اور جب ساتھی ارکان ملکوں کو مشورہ دینے کا وقت آتا ہے تو یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یعنی اخبارات کی شہ سرخیاں بننے کے بجائے تبدیلی کے لیے ٹھوس وعدے حاصل کیے جائیں۔’’
یہ طریقہ اپنانے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انڈونیشیا کو برما کا اعتماد حاصل ہو گیا ہے۔ گزشتہ سال سابق نائب صدر جوصف گالا برما کی راکین صوبے کے دورے پر گئے۔ پھر جنوری میں عجیب بات یہ ہوئی کہ وزیرِ خارجہ مارٹی ناتالاگوا کو ایک ایسے علاقے کا دورہ کرنے کا موقع مل گیا جو مسلمانوں کے خلاف گزشتہ سال کے فسادات میں سب سے زیادہ بری طرح متاثر ہوا تھا۔
اگرچہ جکارتہ نے برما میں مسلمانوں کے خلاف پھیلے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار تو کیا ہے، لیکن صدر کے معاون کہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنا برما کے لوگوں کا کام ہے۔
جب انڈونیشیا میں جمہوریت آئی تھی تو اسے بھی اسی قسم کے اندرونی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انڈونیشا جانتا ہے کہ اصلاحات کے عمل سے نمٹنے میں کتنی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انڈونیشیا میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور اگر یہ تاثر پیدا ہو جائے کہ وہ روہنگیا کی طرفداری کر رہا ہے تو اس سے آسیان میں پھوٹ پڑ سکتی ہے اور اس علاقائی تنظیم میں اس کا اہم رول خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
انڈونیشیا کی کمپنیوں کی نظر برما میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی ہے۔ اگر جکارتہ نے برما پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تو ہو سکتا ہے کہ اس کا اثر و رسوخ کم ہو جائے۔
واشنگٹن ڈی سی کے سینیٹر فار اسٹرایٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سیڈیز
میں سینیئر فیلو مُری ہائبرٹ کہتے ہیں کہ یہ بات اہم ہے کہ انڈونیشیا اپنے تجربات سے برما کو آگا ہ کرے اور اسے اخلاقی امداد دے اور اس کی حوصلہ افزائی کرے، بجائے اس کے کہ وہ اس پر دباؤ ڈالے۔
انڈونیشیا کی پارلیمینٹ کے بعض ارکان نے برما میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ سیکورٹی کے شعبے میں اصلاحات پر بات چیت کی ہے۔
برما کی مجلسِ قانون ساز میں ملک کی بعض انتہائی اہم اصلاحات ہوئی ہیں، اگرچہ حکومت کے بیشتر عہدوں پر اب بھی فوجی براجمان ہیں۔ انڈونیشیا کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمینٹ کے پاس زیادہ اختیارات ہوں تو وہ برما کے مستقبل کی سمت متعین کرنے میں زیادہ اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
انڈونیشیا اور برما میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ملکوں میں ایک زمانے تک فوجی آمریت قائم رہی اور آج کل دونوں ملکوں کے سربراہ سابق جنرل ہیں۔ دونوں نے آمریت سے جمہوریت تک کا تکلیف دہ سفر مکمل کیا ہے اور تبدیلی کے اس عمل کے دوران دشواریوں کا مقابلہ کیا ہے۔
دانشور اور سرکاری مشیر کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے ایک جیسے حالات کی وجہ سے ان میں یہ سمجھ بوجھ پیدا ہوئی ہے کہ تبدیلی لانے میں وقت لگتا ہے۔ اسی احساس کی وجہ سے انڈونیشیا نے اصلاحات کا عمل تیز کرنے کے لیے برما پر دباؤ ڈالنے سے اعتراض کیا ہے۔
ٹیکیو فیزاسیا صدر یودھویونو کے اسسٹنٹ برائے بین الاقوامی امور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ظاہر ہے کہ جب ملک اپنے سیاسی نظام کی اصلاح کا عمل شروع کرتے ہیں جیسا کہ ماضی میں انڈونیشیا نے کیا تھا تو انہیں شروع میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرقہ وارانہ تصادم ہو تا ہے، تشدد اور دوسری چیزیں ہوتی ہیں جو جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ برما میں اس مرحلے پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوریت کی نئی حقیقتوں کا ایک جز ہے۔’’
1998 میں جب زبردست احتجاجوں کے بعد مطلق العنان صدر سوہارتو کا تختہ الٹ دیا گیا تو انڈونیشیا نے فوج کو حکومت سے الگ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی انڈونیشیا نے برما کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اس ملک کی فوجی حکومت کو پابندیاں ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
برما کے حالات پر نظر رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ برما میں بڑی اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔ برما کے صدر تھین سین نے دو سال قبل حکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد میڈیا پر پابندیاں نرم کر دی ہیں سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور باغی گروپوں کے ساتھ جنگ بندی کے سمجھوتے کرنے میں مدد دی ہے۔
لیکن برما میں جہاں کی آبادی کی اکثریت بدھسٹ ہے نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ہیں اور یوں وہ تمام اصلاحات جو اب تک کی گئی ہیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوامِ متحدہ نے گذشتہ جون میں بدھوں اور مسلمانوں کے درمیان مغربی راکین صوبے میں فسادات پھوٹ پڑنے کے بعد برما کی حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اور زیادہ اقدامات کرے۔
لیکن تشدد اور زیادہ پھیل گیا ہے اور 100,000 سے زیادہ افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
تشدد سے بچ کر فرار ہونے والے بہت سے لوگ بیرونی ملکوں میں چلے گئے ہیں اور کچھ نے انڈونیشیا میں پناہ لی ہے ۔ فی الحال، انڈونیشیا کی حکومت کی کوشش ہے کہ برما کی حکومت پر نکتہ چینی کے بجائے ، اس کے ساتھ بات چیت کی جائے ۔
سنگا پور کے انسٹیٹویٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشن سٹیڈیز میں ایک محقق مو تھازر کہتے ہیں کہ انڈونیشیا نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ وہی ہے جس پر انڈونیشیا آسیان میں عمل کرتا رہا ہے۔
‘‘آسیان کے ایک بانی رکن کی حیثیت سے انڈونیشیا خاموش سفارتکاری کا زبردست حامی ہے اور جب ساتھی ارکان ملکوں کو مشورہ دینے کا وقت آتا ہے تو یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یعنی اخبارات کی شہ سرخیاں بننے کے بجائے تبدیلی کے لیے ٹھوس وعدے حاصل کیے جائیں۔’’
یہ طریقہ اپنانے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انڈونیشیا کو برما کا اعتماد حاصل ہو گیا ہے۔ گزشتہ سال سابق نائب صدر جوصف گالا برما کی راکین صوبے کے دورے پر گئے۔ پھر جنوری میں عجیب بات یہ ہوئی کہ وزیرِ خارجہ مارٹی ناتالاگوا کو ایک ایسے علاقے کا دورہ کرنے کا موقع مل گیا جو مسلمانوں کے خلاف گزشتہ سال کے فسادات میں سب سے زیادہ بری طرح متاثر ہوا تھا۔
اگرچہ جکارتہ نے برما میں مسلمانوں کے خلاف پھیلے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار تو کیا ہے، لیکن صدر کے معاون کہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنا برما کے لوگوں کا کام ہے۔
جب انڈونیشیا میں جمہوریت آئی تھی تو اسے بھی اسی قسم کے اندرونی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انڈونیشا جانتا ہے کہ اصلاحات کے عمل سے نمٹنے میں کتنی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انڈونیشیا میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور اگر یہ تاثر پیدا ہو جائے کہ وہ روہنگیا کی طرفداری کر رہا ہے تو اس سے آسیان میں پھوٹ پڑ سکتی ہے اور اس علاقائی تنظیم میں اس کا اہم رول خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
انڈونیشیا کی کمپنیوں کی نظر برما میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی ہے۔ اگر جکارتہ نے برما پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تو ہو سکتا ہے کہ اس کا اثر و رسوخ کم ہو جائے۔
واشنگٹن ڈی سی کے سینیٹر فار اسٹرایٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سیڈیز
میں سینیئر فیلو مُری ہائبرٹ کہتے ہیں کہ یہ بات اہم ہے کہ انڈونیشیا اپنے تجربات سے برما کو آگا ہ کرے اور اسے اخلاقی امداد دے اور اس کی حوصلہ افزائی کرے، بجائے اس کے کہ وہ اس پر دباؤ ڈالے۔
انڈونیشیا کی پارلیمینٹ کے بعض ارکان نے برما میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ سیکورٹی کے شعبے میں اصلاحات پر بات چیت کی ہے۔
برما کی مجلسِ قانون ساز میں ملک کی بعض انتہائی اہم اصلاحات ہوئی ہیں، اگرچہ حکومت کے بیشتر عہدوں پر اب بھی فوجی براجمان ہیں۔ انڈونیشیا کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمینٹ کے پاس زیادہ اختیارات ہوں تو وہ برما کے مستقبل کی سمت متعین کرنے میں زیادہ اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔