بدھ کے روز انڈونیشیا میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں، جن میں اہل ووٹروں کی کُل تعداد 19 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ انتخابی مہم کے دوران معیشت پر دھیان مرتکز رہا، لیکن مذہبی سیاسی رجحان بھی اس دنیا کی سب سے بڑی مسلمان آبادی والے ملک میں اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
صدر جوکو ودودو فرنیچر کے سابق سیلزمین رہے ہیں، جنھوں نے اپنا سیاسی کیرئر چھوٹے شہر کے میئر کی حیثیت سے کیا۔ وہ دوبارہ انتخاب لڑ رہے ہیں اور اس بار بھی اُن کا مقابلہ ایک سابق جنرل پرابوو سبیانتو سے ہے، جنھیں اُنھوں نے 2014ء میں کچھ ووٹوں سے ہرایا تھا۔
ایسے میں جب اسلام انتخابی مہم کا موضوع رہا ہے، سیاست دان جن میں ودودو بھی شامل ہیں، اپنے آپ کو زیادہ مذہبی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کے لیے جو بات پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ قدامت پسندی عوامی پالیسی کا روپ دھار سکتی ہے۔
رائے عامہ کے زیادہ تر جائزوں میں ودودو کو اپنے مد مقابل کے خلاف خاصی سبقت حاصل ہے۔ تاہم، حزب مخالف نے سروے کے نتائج کو چیلنج کیا ہے۔ چند حالیہ سروے رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پرابوو کی کارکردگی میں بہتری آ رہی ہے۔
حزب مخالف نے کہا ہے کہ اُنھوں نے ڈیٹا میں بے قائدگیوں کا پتا لگایا ہےجس کے نتیجے میں الیکٹورل نوعیت کا اثر پڑ سکتا ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اگر ان کی شکایات کو دور نہیں کیا گیا تو وہ قانونی چارہ جوئی کریں گے یا پھر ’’عوامی طاقت‘‘ استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے۔
انڈونیشیا دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت ہے جہاں انتخابات منعقد کرانا ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے، جہاں امیدواروں کی تعداد 245000 ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے انتخابات ایک ہی روز کرائے جاتے ہیں۔
تقریباً 350000 پولیس اور فوجی اہل کاروں کے علاوہ 16 لاکھ نیم فوجی اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں، جو ووٹنگ کر نگرانی کرتے ہیں، جو کام 17000 جزیروں پر مشتمل اس ملک میں سر انجام دیا جاتا ہے۔
انتخابات میں دھاندلی کے کسی حربے کے استعمال کو روکنے کے لیے 10000 سے زائد افراد پولنگ اسٹیشنوں پر رضاکارانہ کام کریں گے۔
ملک کے مشرقی علاقے میں پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ صبح سات بجے (منگل کے روز جی ایم ٹی کے مطابق 10بجے رات) سے شروع ہوگی، جب کہ مغربی علاقے میں ووٹنگ ایک بجے دوپہر (جی ایم ٹی 6بجے صبح) بند ہو گی۔
غیر سرکاری ’’فوری گنتی‘‘ کے اعداد پولنگ مکمل ہونے کے چند ہی گھنٹوں کے اندر جاری ہوں گے؛ جب کہ بدھ کی شام گئے کامیاب ہونے والے صدر کا اعلان متوقع ہے۔
جنرل الیکشن کمیشن کی جانب سے سرکاری نتائج کا اعلان مئی میں متوقع ہے۔