اتوار کے روز انڈو نیشیا کے دار الحکومت جکارتہ میں ہونے والی اس ریلی کا موضوع برداشت اور اتحاد تھا جس میں ہزاروں لوگو ں نےشرکت کی۔ یہ امن ریلی جکارتا میں قدامت پسند مسلمانوں کے دو بڑے پیمانے کے ان حالیہ مظاہروں کے بعد ہوئی جن میں شہر میں پچاس برسوں میں کسی پہلی عیسائی گورنر کو ہٹانے کامطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ امن ریلی اس کے دو روز بعد ہوئی جب دو لاکھ سے زیادہ لوگ بوسوکی تجاباجا پرنام کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے دار الحکومت میں اکٹھے ہوئے جو اہوک کے نام سے معروف ہیں۔ صدر جوکو ویدودو نے جمعے کے روز ریلی کا ایک اچانک دورہ کیا اور مجمع پر زور دیا کہ وہ پر امن طریقے سے منتشر ہو جائیں
اہوک کے خلاف قران کے بارے میں کیے جانے والے تبصروں کی وجہ سے توہین مذہب کے مقدمات چلائے جا رہےہیں۔ ا نہوں نے بعدمیں معافی مانگ لی تھی اور کہا تھا کہ ان کا کبھی بھی کسی کو ناراض کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ لیکن اس کا بہت سے مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا جو اس بات پر برہم ہیں کہ ایک مسلم اکثریتی شہر ایک مسیحی کے زیر انتظام ہے۔ مسٹر اہوک فروری میں جکارتا کے گورنر کے طور پر دوبارہ انتخاب لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اتوار کی ریلی میں انڈونیشیا کے لوگوں نے قومی پرچم لہرایا اور ایسے بینرز اٹھائے ہوئےتھے جن پر لکھا تھا کہ ’ہم انڈو نییشی ہیں‘ – نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے چئیر مین سوریا پالو نے کہا ’ ہمارا سب سے بڑا دشمن حماقت اور غربت ہے۔
جکارتاکے ایک رہائشی جارج اگس نے کہا کہ، ہم انڈو نیشیا ہیں جو مختلف جزائر پر آباد مختلف نسلی گروپس کی ایک متنوع قوم ہے ۔ ہم دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ صرف یہ ہی نہیں کہ ہم انڈونیشیا ہیں بلکہ ہم یہاں ایک قوم کے طور پر متحد ہیں۔
چار نومبر کو اہوک کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے میں ایک لاکھ مظاہرین اکٹھے ہوئے ۔ لیکن شام ہوتے ہی ریلی تشدد کی شکل اختیار کر گئی جس میں ایک شخص ہلاک اور درجنوں مزید زخمی ہو گئے تھے۔