انڈونیشیا اپنا دار الحکومت کیوں منتقل کر رہا ہے؟

فائل فوٹو

انڈونیشیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا دار الحکومت جکارتا سے جزیرہ بورنیو منتقل کر دے گا اور اس منصوبے پر تقریباً 33 ارب ڈالر کے اخراجات ہوں گے۔البتہ حکام نے ابھی تک نئے دار الحکومت کا نام ظاہر نہیں کیا ہے۔

انڈونیشیا کے دار الحکومت جکارتا کی آبادی ایک کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہے جب کہ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے جس کی آبادی 26 کروڑ سے زائد ہے۔ جکارتا آئے روز سیلاب اور زلزلوں کے خطرات سے بھی دوچار رہتا ہے۔

جکارتا کی مسلسل بڑھتی آبادی، ماحولیاتی آلودگی اور شہر کے بتدریج سمندر برد ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر انڈونیشیا کے حکومت نے اپنا دار الحکومت جزیرہ بورنیو میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جکارتا کا ایک بڑا حصّہ سطح سمندر سے نیچے ہے جو بتدریج سمندر برد ہو رہا ہے۔ زمینی پانی کو نکالے جانے کی وجہ سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے پیر کو مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیا دار الحکومت ملک کے وسط میں ہوگا جس کے قریب شہری آبادیاں موجود ہیں۔

صدر جوکو ویدودو کے بقول نئے دار الحکومت کے لیے فوری طور پر منصوبہ بندی شروع کرنا ہو گی تاکہ 2024 تک منتقلی کا عمل شروع ہو سکے۔

حکام کے مطابق جکارتا سے تقریباً دو ہزار کلو میٹر دور شمال مشرق میں واقع بورنیو جزیرہ قدرتی آفات سے قدرے محفوظ ہے۔

جکارتا میں ٹریفک کا مسئلہ بھی دیرینہ ہے۔

انڈونیشین صدر کے مطابق دار الحکومت کی منتقلی کی معاشی اور سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ جزیرہ جاوا ملک کی کل آبادی کا 54 فی صد ہے جب کہ یہاں سے مجموعی قومی پیداوار کا 58 فی صد حاصل ہوتا ہے۔

جکارتا میں زیرِ زمین پانی کے بے تحاشا استعمال کے باعث ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں یہ مسلسل زمین میں دھنستا جا رہا ہے۔ اس لیے نئے دار الحکومت کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جا رہی تھی۔

صدر کے فیصلے پر تنقید

انڈونیشیا کے ماہرین ماحولیات دار الحکومت تبدیل کرنے کے اس حکومتی فیصلے پر نالاں نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دار الحکومت کو جزیرہ بورنیو منتقل کرنے سے وہاں ماحولیاتی مسائل جنم لیں گے جب کہ جزیرے کے جنگلات اور قدرتی حسن کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

انڈونیشیا کے صدر نے واضح کیا ہے کہ دار الحکومت کی منتقلی کی قانون سازی کے لیے پارلیمان میں بل جلد پیش کیا جائے گا۔