آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کی پارلیمان نے غیرازدواجی جنسی تعلقات کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔اس قانون سازی کو ناقدین انسانی حقوق کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
انڈونیشیا کی پارلیمنٹ میں موجود تمام نو جماعتوں نے منگل کو ہونے والی قانون سازی کی حمایت کی اور کثرت رائے سے اس قانون کو منظور کیا گیا۔
اس قانون سازی کے ذریعے انڈونیشیا میں نافذ ولندیزی یعنی ڈچ دور کے فوجداری قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔ قانون میں ہونے والی اس ترمیم پر انڈونیشیا میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بحث جاری تھی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق فوجداری قوانین میں ہونے والی اس ترمیم پر انڈونیشیا میں انسانی حقوق کے بعض گروپس نے احتجاج کیا ہے اور اسے شہری و سیاسی آزادیوں کو دبانے کا اقدام قرار دیا ہے۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا کا آئین سیکولر ہے تاہم فوجداری قانون میں ترمیم مسلم اکثریتی ملک کو بنیاد پرستی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔
پارلیمنٹ سے خطاب میں انڈونیشیا کے وزیرِِ قانون و انسانی حقوق یاسونا لیولی کا کہنا تھا کہ اس اہم معاملے پر آنے والی مختلف آرا رکھنے کو اہمیت دی گئی ہے۔ تاہم وقت آچکا ہے کہ ہم ایک تاریخی فیصلہ کریں اور نوآبادیاتی دور کے ورثے میں ملنے والے فوجداری قوانین کو پیچھے چھوڑ دیں۔
انڈونیشیا کی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی قانون سازی کے بعد شادی کے بغیر جنسی تعلقات اور غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ غیر شادی شدہ جوڑوں کے ساتھ رہنے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ ناقدین کے نزدیک یہی اس قانون کی سب سے متنازع شقیں ہیں۔
SEE ALSO: کیا ایران میں اخلاقی پولیس واقعی ختم کر دی گئی ہے؟ایک سال قید کی سزا
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسے قانون کے موصول ہونے والے متن میں شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنے والوں کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید کی سزا تجویز کی گئی ہے جب کہ غیر ازدواجی جنسی تعلقات رکھنے پر ایک سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔
اس قانون کے ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی پر اثرات سے متعلق بھی خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ انڈونیشیا میں ایک ہی جنس کے افراد کی شادیاں غیر قانونی ہیں۔
انڈونیشیا کی وزارتِ قانون و انسانی حقوق کے ترجمان البرٹ ایریز نے پارلیمنٹ میں فوجداری قانون میں ہونے والی اس ترمیم پر رائے شماری سے قبل اس کا دفاع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون سازی معاشرے میں شادی کے ادارے کو تحفظ دینے کے لیے کی جارہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے بارے میں شوہر یا بیوی، والدین یا اولاد ہی کو شکایت کا حق ہوگا۔ اس طرح اس ترمیم کے قانون اثرات محدود رہیں گے۔
SEE ALSO: ایران میں حجاب اور لباس کی پابندیاں نافذ کرنے والی پولیس کتنی طاقت ور ہے؟’سیاحت متاثر ہوگی‘
غیر ازدواجی تعلقات کو جرم قرار دینے کی شق پر انڈونیشیا کی کاروباری تنظیموں نے تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی سے ملک میں سیاحت متاثر ہوگی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس قانون کا اطلاق غیر ملکی سیاحوں پر نہیں ہوگا۔
پارلیمنٹ میں اس ترمیم پر رائے شماری سے قبل ایک بزنس کانفرنس میں انڈونیشیا کے لیے امریکہ کے سفیر سنگ یونگ کم نے کہا تھا کہ انہیں اس قانون کی ’اخلاقی شقوں‘ پر تحفظات ہیں اور نئے قوانین کاروباری سرگرمیوں پر ’منفی‘ اثرات مرتب کریں گے۔
پارلیمنٹ میں قانون پر رائے شماری سے قبل اسلام پسند جماعت ’پراسپیرس جسٹس پارٹی‘ (پی کے ایس) کے رکن اسکن کولبا لیوبس اور ڈپٹی اسپیکر کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔
وہ قانون سازی پر اپنی رائے دینا چاہتے تھے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے انہیں روک دیا جس پر انہوں نے چلانا شروع کردیا ’ڈکٹیٹر مت بنو‘۔
قانون کے متن پر غور و فکر کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ بامبینگ وریانتو کا کہنا ہے کہ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، اس لیے انہیں کسی غلطی سے مبرا قرار نہیں دیا جاسکتا۔
’انڈونیشیا پیچھے جا رہا ہے‘
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ اس قانون سازی کو انڈونیشیا میں ’اخلاقی پولیسنگ‘ کا آغاز قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: دنیا کے نصف جمہوری ملکوں میں جمہوریت زوال پذیر ہے: رپورٹانڈونیشیا میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر عثمان حمید نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پیچھے کی جانب جارہے ہیں۔ آزادیاں محدود کرنے والےقوانین ختم ہونے چاہیے تھے لیکن حالیہ قانون سازی نے بیرون ملک مقیم اسکالرز کی یہ بات درست ثابت کر دی ہے کہ بلا شبہ انڈونیشیا میں جمہوریت زوال پذیر ہے۔
پیر کو اس قانون سازی کے خلاف تقریبا 100 افراد نے احتجاج بھی کیا تھا جب کہ منگل کو بھی پارلیمنٹ کے باہر ایک مظاہرہ ہوا۔
مظاہرین نے فوجداری قوانین میں تبدیلی کو مسترد کرنے کے بینرز اٹھار رکھے تھے اور اس قانون سازی کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
اس خبر میں شامل معلومات ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔