پنجاب اسمبلی میں قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے جہاں چوہدری پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز شریف اراکینِ اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے متحرک ہیں تو وہیں بعض حلقے حمزہ شہباز شریف کی بطور وزیرِ اعلٰی نامزدگی کو موروثی سیاست کا تسلسل قرار دے رہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کا ہفتے کو ہونے والا اجلاس تقریباً چار گھنٹے تاخیر سے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کی زیرِ صدارت شروع ہوا جس کے بعد سیکریٹری اسمبلی محمد خان بھٹی نے نئے قائدِ ایوان کے لیے شیڈول کا اعلان کیا۔
اعلان کے مطابق ہفتہ کی شام پانچ بجے تک اُمیدوار کاغذاتِ نامزدگی حاصل کر سکیں گے جب کہ چھ بجے تک اُن پر اعتراضات اُٹھائے جا سکتے ہیں جس کے بعد کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دیے جائیں گے۔
شیڈول کا اعلان ہونے اور چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے اختیارات ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو دیے جانے کے بعد اجلاس تین اپریل تک ملتوی کر دیا گیا۔
شیڈول کا اعلان ہوتے ہی وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے لیے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار چوہدری پرویز الہٰی اور اپوزیشن کے نامزد امیدوار حمزہ شہباز شریف نے سیکریٹری اسمبلی کے آفس میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
چوہدری پرویز الہٰی کے کاغذات نامزدگی اراکین اسمبلی محمد بشارت راجا، چوہدری ظہیر الدین، میاں اسلم اقبال، ڈاکٹر مراد راس اور میاں محمود الرشید نے جمع کرائے جب کہ حمزہ شہباز نے اپنے کاغذات نامزدگی خود جمع کرائے۔
چوہدری پرویز الہٰی حکومتی اتحاد کے مشترکہ اُمیدوار ہیں جب کہ حمزہ شہباز شریف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے متفقہ اُمیدوار ہیں۔ چوہدری پرویز الہٰی کو وزیرِ اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کے استعفے کے بعد نیا وزیراعلیٰ نامزد کیا ہے۔
پنجاب کے نئے قائدِ ایوان کے انتخاب سے قبل سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔ دونوں دھڑے تحریک انصاف کے ناراض اراکین کے جہانگیر ترین کی قیادت میں بننے والے گروپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے زور لگا رہے ہیں جب کہ ترین گروپ نے لاہور میں حمزہ شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد اُن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
حمزہ شہباز کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے وفد سے ترین گروپ کے 16 اراکین نے ملاقات کی۔ جن میں سلمان نعیم، نعمان لنگڑیال، امین چوہدری، نذیر خان بلوچ، اجمل چیمہ، سعید اکبر نوانی، فیصل جبوانہ، قاسم لنگا، بلاول وڑائچ، غلام رسول، طاہر رندھاوا، زوار وڑائچ، اسلم بھروانہ اور غلام رسول شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل علیم خان گروپ پہلے ہی حمزہ شہباز کی حمایت کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔
علیم خان گروپ کا دعوٰی ہے کہ اُن کے گروپ کے ارکان کی تعداد 10 ہے تاہم ذرائع ابلاغ میں اُن کے گروپ کے چار افراد ہی سامنے آئے ہیں۔
دوسری جانب ترین گروپ کے تین ارکان رفاقت گیلانی، امیر محمد خان اور عبدالحی دستی نے چوہدری پرویز الہٰی سے ملاقات کر کے اُن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
وفاق اور پنجاب میں قائدِ ایوان کے لیے شریف خاندان کی جانب سے اُمیدوار سامنے آنے پر سیاسی مبصرین اُنہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے موروثی سیاست کبھی ختم نہیں ہو گی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کا یہی مسئلہ ہے اگر سندھ میں دیکھیں تو بے نظیر بھٹو تھی، پھر آصف زرداری، پھر بلاول آ گئے اور اب اُن کی بیٹیاں بھی آ رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد ولید نے کہا کہ یہ لوگ اقتدار اپنے خاندان کے اندر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ پنجاب میں بھی یہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔ پہلے نواز شریف تھے پھر اُن کے بھائی اور اب شہباز شریف ملک کے وزیرِ اعظم بن رہے ہیں تو وزارتِ اعلیٰ کے لیے اپنے ہی بیٹے کو نامزد کر دیا ہے جس پر آزاد حلقوں کی جانب سے کافی تنقید ہو رہی ہے۔ پارٹی کے اندر سے بھی تنقید ہو رہی ہے لیکن وہ کھل کر بولتے نہیں ہیں۔
احمد ولید کے مطابق حمزہ شہباز کافی عرصے سے کوشش کر رہے تھے کہ اگلے سیٹ اَپ میں اُنہیں وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ دیا جائے۔ لندن میں بیٹھے نواز شریف نے اِن کو گرین سگنل دیا جس کے بعد حمزہ شہباز نے تنظیم سازی اور دوسرے کام شروع کر دیے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کا بڑا المیہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں جب حزبِ اختلاف میں ہوتی ہیں تو کچھ کہتی ہیں اور جب اقتدار میں آتی ہیں تو کچھ اور کہتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی نے کہا کہ جہاں تک پنجاب کی بات ہے یہاں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اصل امیدار چوہدری پرویز الٰہی تھے۔ اِنہی کے کہنے پر عثمان بزدار کے خلاف عدمِ اعتماد لائی گئی۔
اُنہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز ایک ہنگامی اُمیدوار ہیں جو پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی ہیں۔
سینئر صحافی احمد ولید سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مایوسی کی صورتِ حال ہے جس میں اگر یہ پالیسی اپنائی جائے گی تو لوگ تنقید کرتے رہیں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر سے بھی کھل کر آوازیں نہیں آتیں کیوں کہ پارٹی کے اندر بھی حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔
احمد ولید کے بقول نواز شریف جو فیصلہ کرتے ہیں جماعت کو وہ من وعن تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ اِسی طرح پی ٹی آئی میں عمران خان نے جو فیصلہ کر لیا، پوری جماعت نے اُس کو ماننا ہے۔ یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے جہاں تمام فیصلے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کرتے ہیں۔
سینئر صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہی یہی ہے کہ سیاست دان کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جب بھی یہ افراد حکومت میں آتے ہیں تو اُن کے نظریات بدل جاتے ہیں۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسی لیے پاکستان میں جمہوریت اور سیاست دونوں مضبوط نہیں ہو سکے ہیں، جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہو گی پاکستان میں جمہوریت نہیں آئے گی۔
احمد ولید کے بقول حمزہ شہباز کی جگہ مسلم لیگ (ن) سے ملک احمد خان اور خواجہ سلمان رفیق کا نام بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب زیرِ غور آیا تھا لیکن قرعہ خاندان کے بچوں کے نام ہی نکلتا ہے اور پارٹی من وعن اُس کو قبول کر لیتی ہے۔
احمد ولید کے بقول نجی محفلوں میں جماعت کے اندر سے اِس پر بات ہوتی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس اور بہت سے اچھے نام ہیں۔ جیسا کہ شاہد خاقان عباسی نے بطور وزیرِ اعظم بہت اچھے کام کیے۔