پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان کی فوج کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز مہم چلانے والے اکاؤنٹس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
گزشتہ روز اس ٹیم میں صرف ایف آئی اے کے اہل کار شامل تھے البتہ اب اس میں ملک کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور سول خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کے افسران کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیو بیانات موجود ہیں جن میں پولیس اور ایف آئی اے کے زیرِ حراست پاکستان تحریک انصاف کے کارکن نفرت انگیز ٹوئٹس کرنے کا اقرار کر رہے ہیں۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف نے ایسے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی ہے جن سے مبینہ طور پر فوج کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلایا گیا ہے جب کہ کسی ادارے نے تاحال یہ تسلیم نہیں کیا کہ ان کی حراست میں موجود افراد کی ویڈیوز جاری کی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ پاکستان کی فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایف آئی اے ٹیم کی تحقیقات شروع
ایف آئی اے کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد جعفر کی سربراہی میں قائم ہونے والی تحقیقاتی کمیٹی میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر وقار الدین سید، آئی ایس آئی کےلیفٹننٹ کرنل سعد، انٹیلی جنس بیورو کے وقار نثار چوہدری، ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز خان اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمران حیدر شامل ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم نے گزشتہ روز ہی سے اپنی تحقیقات کا آغاز کردیا تھا اور ابتدائی طور پر مبینہ طور پر نفرت انگیز مہم کا حصہ بننے والے تمام اکاؤ نٹس کو شارٹ لسٹ کرلیا گیا ہے، جس کے بعد مقدمات کے اندراج اور گرفتاری کا عمل شروع ہو گا۔
ان تحقیقات سے باخبر ایف آئی اے کے ایک ذمے دار افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ان تحقیقات میں کئی اکاؤنٹس کی نشاندہی ہوچکی ہے اور ملک بھر میں جن آئی پی ایڈریسز سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا ہے ان علاقوں میں ٹیموں کو آگاہ کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند گھنٹوں میں ایف آئی آر کے باضابطہ اندراج کے بعد ان ایڈریسز پر موجود متعلقہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی جائے گی کہ اس پروپیگنڈے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون ہے۔
فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم
بلوچستان میں یکم اگست کو ہونے والے ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد متنازع تبصروں اور افواہوں پر مبنی مہم چلائی گئی تھی۔
فوج کے ترجمان میجرجنرل بابرافتخار نے بھی اپنے ایک بیان میں اس بارے میں کہا تھا کہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد کرب سے گزررہے تھے کہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منفی سوشل میڈیا مہم سے شہدا کے لواحقین کی دل آزاری ہوئی جس کے باعث شہدا کے خاندانوں اورافواجِ پاکستان میں شدید غم وغصہ، اضطراب ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق کچھ بے حس حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تکلیف دہ، توہین آمیزمہم چلائی گئی جو ناقابل قبول اور شدید قابلِ مذمت ہے۔
سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز مہم جوئی کے الزامات کے ساتھ یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ اس مہم کی وجہ سے سے صدر عارف علوی کو حادثے میں ہلاک افراد کی نمازجنازہ میں شرکت کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
صدر عارف علوی نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ شہیدوں کے جنازے میں ان کی عدم شرکت پر غیر ضروری تنازع کھڑا کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اس موقع پر ان لوگوں کی جانب سے نفرت انگیز ٹویٹس کی مذمت کرتا ہوں جو نہ تو ہماری ثقافت اور نہ ہی ہمارے مذہب سے واقف ہیں، جن لوگوں نے وطن کی خاطر جان قربان کی ہم ان کی یاد کی توہین کیسے کرسکتے ہیں؟
صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ جب سے پاکستانی عوام نے مجھے اس ایوان کی ذمے داری سونپی ہے تب سے میں سینکڑوں شہداءکے لواحقین سے بات کرچکا ہوں، جنازوں میں بھی شرکت کی اور خاندانوں سے ملاقات کی ہے۔
ان ٹوئٹس کے علاوہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی لیفٹننٹ جنرل سرفراز کے گھر جا کر فاتحہ خوانی بھی کی تھی۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری اس مہم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کچھ لوگ شہیدوں پر سیاست کر رہے ہیں، اگر شہیدوں کا پتا کرنا ہے تو ہم جہلم، پوٹھوہار والوں سے پوچھیں جو روز اپنے بچوں کو دفن کرتے ہیں۔
ٹرولنگ اور کریک ڈاؤن
انٹر نیٹ صارفین کے حقوق پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ’بائٹس فور آل‘ کے ہارون بلوچ مبینہ طور پر پی ٹی آئی اکاؤنٹس کی طرف سے ٹرولنگ اور اس کے بعد شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایسی کارروائیوں کی تائید نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے ایک ہی انداز میں ٹرولنگ کرتے ہیں۔ ٹرولنگ کی سائبر کرائم لا میں کسی طور اجازت نہیں، اس ٹرولنگ کے بعد بہت سے ایسے افراد کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے جو صرف اس بارے میں اپنا نقطۂ نظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کریک ڈاؤن کے بعد آزادیٔ اظہارِ رائے بھی محدود ہوتی ہے جو کسی طور پر درست نہیں ہے۔
ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ اس وقت قانون بہت سخت ہے۔ کنٹرول بعض اوقات اتنا سخت ہوجاتا ہے کہ لوگ سیلف سنسر شپ کرنے لگتے ہیں۔ توازن پیدا کرنے کے لیے عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کردار صرف قانون بنا کر سیکیورٹی کو کنٹرول کرتا ہے لیکن لوگوں کی تربیت نہیں کی جاتی، انہیں سکھایا نہیں جاتا کہ سوشل میڈیا پر کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ بعض اوقات ان قوانین کے نرغے میں آتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان فوج کے لاپتا ہیلی کاپٹر کا ملبہ مل گیا، کور کمانڈر سمیت چھ افسران کی ہلاکتوں کی تصدیقہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت سائبر قوانین ضرورت سے زیادہ ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہےکہ بہت سے قوانین کو صرف اپنے فائدہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت یا ادارہ ہو وہ ان قوانین کو تمام افراد پر لاگو کرنے کے بجائے صرف اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو شعور اور تعلیم دینے پر زور دیا جائے۔