جب چاکلیٹ کرنسی اور قیمتی زیورات کے طور پر استعمال ہوتی تھی

فائل فوٹو

یہ 1502 کی بات ہے جب کرسٹوفر کولمبس اپنی چوتھی بحری مہم کے دوران وسطی امریکہ میں خلیجِ ہنڈوراس کی ایک بندرگاہ پہنچے توانہیں ایک مقامی مشروب زوکوٹل پیش کیا گیا۔

کولمبس اور ان کے ساتھیوں کو اس مشروب کا ذائقہ کچھ تلخ ضرور محسوس ہوا۔ لیکن اسے پینے کے بعد ان کی تھکن اتر گئی۔

معلوم کرنے پر انہیں بتایا گیا کہ اس مشروب کی تیاری میں مقامی طور پر پیدا ہونے والے پودے ’کاکاؤ‘ سے حاصل ہونے والے بیج پیس کر شامل کیے گئے ہیں۔

کولمبس اور ان کے ساتھی کاکاؤ کے بیج اپنے ساتھ اسپین لے گئے لیکن ان کے بارے میں بہت سے سوالات کے جواب ان کے پاس نہیں تھے۔

کچھ ہی عرصے بعد ایک اور ہسپانوی مہم جو ایرنین کورٹیز 1518 میں پہلی مرتبہ میکسکو پہنچے تو انہیں وہاں ایزٹیک سلطنت کے باشادہ مونتیزوما کے سامنے پیش کیا گیا۔

وہ بادشاہ کی مہمان نوازی اور ان کے دربار کی شان و شوکت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ کورٹیز اور ان کے ساتھیوں کو بھی زوکوٹل مشروب پیش کیا گیا جو انہیں بہت پسند آیا۔

اسی لیے جب کچھ عرصے بعد کورٹیز اور اس کے ساتھیوں نے اپنے میزبان بادشاہ کی سلطنت ختم کی تو وہ اس مشروب کے بنیادی جز کاکاؤ کے بیج اپنے ساتھ لے گیا اور اسپین میں اس کی کاشت شروع کرائی۔ 1580 تک اسپین میں کاکاؤ کے بیجوں سے مشروبات تیار کیے جانے لگے۔

کاکاؤ کے پھل۔

اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے جلد ہی کاکاؤ اسپین کے اشرافیہ میں مقبول ہو گیا اور اس کی کاشت منافع بخش کاروبار بن گئی۔

اس کے سفوف کو ’کوکوا‘ کہا جانے لگا اور بعد میں جب یورپ میں شکر کی پیداوار بڑھی تو کوکوا کے ساتھ اسے ملا کر مختلف مٹھائیاں بنائی جانے لگیں جنہیں ’چاکلیٹ‘ کا نام دیا گیا۔

آج چاکلیٹ مشروبات سے لے کر کیک، ڈیزرٹس اور میٹھی اشیا کا مقبول ترین حصہ بن چکی ہے۔

دنیا اسپین کے ذریعے چاکلیٹ کے ذائقے اور استعمال سے روشناس ہوئی لیکن اس کی تاریخ ہزاروں برس، مختلف اساطیر اور دلچسپ تاریخی روایات پر پھیلی ہوئی ہے۔

دیوتاؤں کا تحفہ

جس پودے سے چاکلیٹ حاصل کی جاتی ہے اس کا نباتاتی نام ’تھیوبروما کاکاؤ‘ ہے۔

شمالی امریکہ کے جنوب اور وسطی امریکہ کے مختلف علاقوں پر پھیلا خطہ جسے ’میسو امریکہ‘ کہا جاتا ہے وہ کئی قدیم تہذیبوں کا مسکن تھا۔

آج یہ علاقہ میکسیکو، ہنڈوراس، ایل سلواڈور، گوئٹے مالا، بیلیز اور کوسٹاریکا جیسے ممالک میں تقسیم ہے۔

یہاں آلملک، زاپوٹک، مایا، ٹولک اور آزٹک تہذیبیں اور سلطنتیں قائم تھیں۔

کاکاؤ کی سب سے زیادہ پیداوار افریقہ میں ہوتی ہے۔

مختلف مؤرخین کے مضامین پر مشتمل کتاب ’چاکلیٹ ان میسو امریکہ‘ کے مطابق ان تہذیبوں کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ کاکاؤ پودے کو ان میں بہت اہمیت حاصل تھی۔

انہیں مذہبی رسومات، شادی کی تقریبات اور تحائف کے لیے خاص سمجھا جاتا تھا۔

کاکاؤ کے بادام سے ملتے جلتے پھل میں موجود بیج کو پیس کر مشروبات میں شامل کیا جاتا تھا اور اس کے گودے سے شراب تیار کی جاتی تھی۔

بیجوں کو خشک کرنے کے بعد پیس کر مورتیوں پر لگایا جاتا تھا اور اس سے تیار کردہ مشروب مذہبی تہواروں کا لازمی حصہ تھے۔

’چاکلیٹ اینڈ میسو امریکہ‘ کے مطابق وسطی اور شمالی امریکہ کی ان قدیم تہذیبوں میں کاکاؤ کے پھل سکوں کے طور پر استعمال کیے جاتے تھے۔

جواہرات کی طرح اس کے زیور تیار کیے جاتے تھے جنہیں بادشاہ، قبائلی سردار یا اعلیٰ منصب پر فائز شخص اور شادی پر دلہا دلہن بھی آرائش کے لیے پہنا کرتے تھے۔

میسو امریکہ کی مختلف قدیم تہذیبوں میں کاکاؤ پودے کے ناموں کی تحقیق سے بھی اس پودے سے جڑی داستانوں کا سراغ ملتا ہے۔

SEE ALSO: سوئٹزرلینڈ میں چاکلیٹ کی بارش

چاکلیٹ کی تاریخ پر مختلف کتابوں میں درج تفصیلات کے مطابق قدیم مایا، آلمک اور ایزٹیک تہذیبوں میں اس پودے کو زرخیزی کے دیوتاؤں کا خصوصی تحفہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے لیے ایسے نام بھی ملتے ہیں جن کا مقامی زبان میں مفہوم ’خدائی خوراک‘ وغیرہ بھی ہے۔

یورپ سے آگے

کاکاؤ کا پودا جب اسپین پہنچا تو اس کے بعد اس کی نوآبادیات میں تیزی سے اس کی کاشت شروع ہو گئی۔

سال 1660 کی دہائی تک اس کی بڑی مقدار نیدر لینڈز برآمد کی جانے لگی۔

وسطی امریکہ میں اسپین کے زیرِ تسلط علاقے جنہیں نیو اسپین کہا جاتا تھا، وہاں وباؤں اور بیماریوں کی وجہ سے غلام بنائی گئی آبادی کم ہوتی گئی۔

یہ غلام زیادہ تر کاکاؤ کی کاشت کرتے تھے۔ یہاں افرادی قوت کم ہونے کے بعد اسپین سے کاکاؤ کی کاشت مغربی افریقہ کی نو آبادیات، گھانا، نائیجیریا، کیمرون اور آئیوری کوسٹ منتقل ہو گئی۔

یہی وجہ ہے کہ وسطی افریقہ میں اپنی ہزاروں برس پر پھیلی تاریخ کے باوجود آج افریقہ چاکلیٹ کے پودے کاکاؤ کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔

ان نو آبادیات کے ذریعے سے چاکلیٹ یورپ کے مختلف ممالک میں پہنچی اور یہاں پہنچ کر سوئٹزر لینڈ کی شناخت بن گئی۔

سوئٹزر لینڈ کا بروقت فیصلہ

سوئٹزر لینڈ وسطی یورپ خطے کی اہم ترین تجارتی گزرگاہوں کے مرکز میں واقع ہے۔ یورپ میں چاکلیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے سوئٹزر لینڈ میں اس کی پراسیسنگ اور مختلف تراکیب میں اس کے استعمال پر کام شروع ہوا۔

سن 1819 میں سوئٹزر لینڈ میں صنعتی سطح پر چاکلیٹ کی پراسیسنگ کے لیے مشین بنائی گئی۔

اس وقت تک چاکلیٹ آج کی طرح نرم و ملائم نہیں تھی۔ سوئٹزر لینڈ میں اسے دودھ میں ملا کر مختلف تجربات کیے گئے اور آج دنیا میں چاکلیٹ اور سوئٹزر لینڈ کا نام ایک دوسرے سے جڑ گیا ہے۔

سوئٹزر لینڈ میں 1867 کے بعد چاکلیٹ کے کئی بڑے برینڈز نے بنائے جانے لگے جن کے مداح آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

اندازوں کے مطابق سوئٹزر لینڈ صرف چاکلیٹ سے تیار کردہ مصنوعات سے سالانہ کئی ارب ڈالر کماتا ہے۔