بھارتی نژاد امریکی کرونا بحران سے نمٹنے کے لیے اپنا حصہ ڈالنے لگے

بھارت میں کرونا بحران سے نمٹنے کیلئے امداد بھجوائی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو

بھارت میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں مدد کیلئے، امریکہ بھر میں ہندو، مسلمان اور سکھوں کی امدادی تنظیمیں متحرک ہو چکی ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی آبادی رکھنے والے ملک بھارت میں عالمی وبا کسی طور قابو میں نہیں آ رہی۔

خبر رساں ادارے، ایسو سی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق، امریکہ میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے بھارتی باشندے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، سینکڑوں کی تعداد میں آکسیجن کنسنٹریٹر اور الیکٹریکل ٹرانسفارمر بھارت بھجوا رہے ہیں۔

انہوں نے لاکھوں ڈالر جمع کئے ہیں، تاکہ خوراک اور چتا جلانے کیلئے لکڑی خریدی جا سکے، اور یہاں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دعائیں بھی کر رہے ہیں، تاکہ بھارت میں رہنے والوں کی روحانی مدد بھی ہو سکے۔

کیلیفورنیا میں قائم انڈین مسلم ریلیف اینڈ چیریٹیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر منظور غوری کا کہنا ہے کہ یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ اس تنظیم نے اب تک ایک ملین ڈالر کا عطیہ دیا ہے جس میں خاندانوں کیلئے ہزاروں کی تعداد میں میڈیکل کٹ اور 300,000 سے زیادہ کھانے شامل ہیں۔

منظور غوری نے کہا ہے کہ ان کے لئے یہ ایک ذاتی المیہ بھی ہے، کیونکہ ان کے خاندان کے 5 افراد کووڈ نائٹین سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

غوری ان بہت سے بھارتی باشندوں میں سے ایک ہیں جو امریکہ آ کر آباد ہوئے اور پیچھے بھارت میں ان کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار کرونا وائرس کا شکار ہوا ہے۔ اس وقت بھارت میں 22.6 ملین سے زیادہ افراد عالمی وبا کی لپیٹ میں آ چکے ہیں جبکہ 246,000 ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم، خیال کیا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ایٹلانٹا میں مقیم ڈاکٹر کیشپ پٹیل کا کہنا ہے کہ ان کیلئے عالمی وبا تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ ڈاکٹر پٹیل کے خاندان کے بچوں سے لیکر بزرگوں تک درجنوں افراد وائرس کی زد میں آئے، اور ان کے 73 سالہ چچا اس سے ہلاک ہو گئے۔

ڈاکٹر پٹیل، بی اے پی ایس سوامی نارائین سنستھا ہندو نامی تنظیم کے شمالی امریکہ میں رضاکار ہیں۔ اس تنظیم نے بھارت کے شدید دباؤ میں آنے والے نظامِ صحت کی مدد کیلئے 250 آکسیجن کنسنٹریٹرز اور سینکڑوں ہزاروں ڈالر کی امداد روانہ کی ہے۔

ڈاکٹر پٹیل کہتے ہیں کہ بھارت میں اس وقت ہسپتال میں بستر، آکسیجن اور ادویات ملنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

حال ہی میں بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ چوٹی کے ماہرین اور ڈاکٹروں پر مشتمل ایک قومی سطح کی ٹاسک فورس تشکیل دے رہی ہے جو آکسیجن آڈٹ کرے گی، تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا حکومت کی جانب سے جاری کردہ رسد متعلقہ ریاستوں تک پہنچ رہی ہے؟ بھارت کی آبادی 1.4 ارب ہے اور وہاں وسیع پیمانے پر آکسیجن کی کمی کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

برطانیہ میں قائم سکھوں کی تنظیم 'خالصہ ایڈ' کی امریکہ میں قائم شاخ اب مزید 500 کنسینٹریٹر اور 500 الیکٹریکل ٹرانسفارمر اس ہفتے نئی دہلی بھیج رہی ہے۔ اسی تنظیم کی بھارت میں کام کرنے والی شاخ کووڈ سے متاثرہ مریضوں، ہسپتالوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی دیکھ بھال اور چتائیں جلانے کیلئے لکڑیاں فراہم کر رہی ہے۔

نیو یارک کے لانگ آئی لینڈ علاقے کے ایک ویئر ہاؤس میں، سکھ رضا کار انتہائی محنت سے درجنوں ٹرانسفارمر پیک کر رہے ہیں۔

'خالصہ ایڈ' کی نیو یارک میں ڈائریکٹر منیت کور کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران زیادہ تر رضاکار ٹھیک سے سوئے بھی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ملازمتیں بھی ساتھ ساتھ کر رہے ہیں۔

منیت کہتی ہیں کہ یہ ایک مشکل وقت ہے۔ لیکن ان کیلئے یہ اپنی برادری کی مدد کا وقت ہے اور بھارت کو یقیناً اس وقت امداد کی ضرورت ہے۔ امریکہ بھر میں مندر، مساجد, گوردوارے اور گرجا گھر اس وقت بھارت میں اپنی بساط کے مطابق امداد بھجوانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔

امریکن جیوئش جائنٹ ڈسٹری بیوشن کمیٹی نے بھی ممبئی اور احمد آباد میں وینٹی لیٹرز اور دیہی آبادیوں میں کام کرنے والے طبی عملے کے تحفظ کیلئے لباس اور آلات بھجوائے ہیں۔ یہ تنظیم انتہائی نگہداشت میں کام کرنے والے امریکی اور اسرائیلی ڈاکٹروں اور نرسوں کے ذریعے آن لائن تربیت کا پروگرام بھی چلا رہی ہے۔

اے پی کے مطابق، نیپال، جو کہ بھارت کا ایک چھوٹا سا ہمسایہ ہے، وہاں بھی وبا شدت پکڑ رہی ہے۔ نیپال کے ڈاکٹروں نے حال ہی میں ایک بڑے بحران سے متعلق متنبہ کیا ہے، کیونکہ وہاں بھی ہسپتالوں میں بستر اور آکسیجن کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اس وجہ سے امریکہ میں رہنے والے نیپالی باشندے بھی مدد کیلئے کمر بستہ ہیں۔

نیو یارک شہر کی یونائیٹد شیرپا ایسوسی ایشن کے سابق صدر اُرجن شیرپا کا کہنا ہے کہ نیپال چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، اور وہاں کی صورتحال خاصی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس تنظیم نے اب تک 5,000 ڈالر اکٹھا کئے ہیں۔