جی بالاچندرن اس سال موسم بہار میں اسی سال کے ہو گئے۔ بھارت میں، جہاں وہ رہتے ہیں، 80 سال کی عمر ایک بڑا سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ اگر کرونا وائرس کی عالمی وبا کا سامنا نہ ہوتا تو بالاچندرن اپنی سالگرہ کے دن دہلی میں اپنے خاندان کے ارکان میں گھرے ہوتے۔
لیکن ایسے میں جب کرونا وائرس نے ان کے ملک میں تباہی پھیلا دی ہے، بالاچندرن کو مبارک بادوں کے ٹیلی فونوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا ہے۔ ان کو جنم دن کی مبارک کے لیے جن لوگوں نے کال کیا، ان میں ان کی ایک فیورٹ بھانجی بھی شامل ہیں، جن کو دنیا کاملا ہیرس کے نام سے جانتی ہے۔ جی ہاں، امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس۔
ریٹائرڈ معلم بالاچندرن کہتے ہیں کہ جمعرات کو جس طرح وڈیو کانفرنس کے پلیٹ فارم زوم پر ان کی سالگرہ کا جشن منایا گیا، اس سے بہتر فنکشن نہیں ہو سکتا تھا۔
مسٹر بالاچندرن نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بھانجی، امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس اور ان کے شریک حیات ڈف ایمہاف سے بھی کافی دیر تک گفتگو کی۔ کاملا ہیرس نے گفتگو کے اختتام پر اپنے ماموں کو یقین دلایا کہ وہ ان کی بیٹی، اپنی کزن کا خیال رکھیں گی جو واشنگٹن میں رہائش پذیر ہیں۔
’’انکل پریشان نہ ہوں، میں آپ کی بیٹی کا خیال رکھوں گی اور ان سے اکثر بات کرتی رہوں گی‘‘
بالاچندرن مارچ میں ہونے والی اس آخری گفتگو کو یاد کرتے ہیں جب سے کرونا وائرس کی دوسری لہر نے بھارت میں صورتحال کو بے قابو کر دیا، ملک کے ہیلتھ کئیر کے نظام پر غیر معمولی بوجھ پڑا اور سینکڑوں ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
بھارت میں کرونا کا بحران، جہاں،بائیڈن انتظامیہ کے لیے سفارتی اور انسانی بنیادوں پر ایک چیلنج بن کر سامنے آیا ہے، نائب صدر کاملا ہیرس کے لیے، جن کی والدہ بھارت میں پیدا ہوئی تھیں، یہ ایک ذاتی چیلنج بھی ہے۔ کاملا ہیرس اپنے پورے سیاسی کیرئر میں بچپن میں کئی بار بھارت جانے کے تجربے کے خود پر اثر سے متعلق جذباتی انداز میں گفتگو کرتی رہی ہیں۔
امریکہ کی نائب صدر جمعے کو محکمہ خارجہ میں گفتگو کر رہی ہیں، جس میں وہ بھارت میں کووڈ نائنٹین سے لڑنے کی کوششوں پر بات کررہی ہیں اور ان مشکل دنوں میں بھارت کے ساتھ امریکہ کی یکجہتی کا اظہار کر رہی ہیں۔
سال 2018 میں بھارت کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’پراتھم‘ کے لیے عطیہ جمع کرنے کی ایک تقریب میں کاملہ ہیرس شریک تھیں اور اس میں خطاب کے دوران انہوں نے اپنے نانا پی وی گوپلان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ وہ اپنے نانا کو اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سنتی رہیں جس میں انہوں نے ایک آزاد اور مساوات پر مبنی جمہوریت کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
کاملا ماضی میں کہہ چکی ہیں کہ آج وہ جو کچھ ہیں، اس میں اپنے نانا کے ساتھ بسنت نگر کے ایک ساحل سمندر پر ٹہلنے کے دوران ہونے والی گفتگو کا گہرا اثر ہے۔
ایسے کئی حوالے ہیں، جن کے سبب بھارت میں جاری کرونا وائرس کا بحران امریکہ کی نائب صدر کے لیے ایک ذاتی چیلنچ سمجھا جا سکتا ہے۔
کاملا ہیرس کے ماموں دلی میں رہتے ہیں، وہ بھی کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہیں اور بالاچندرن بتاتے ہیں کہ وہ تواتر سے ایسی خبریں سن رہے ہیں کہ ان کے دوستوں کو وائرس کا سامنا ہے۔ ان کے بقول، یہ وائرس اب گھر کے قریب آ گیا ہے۔ کئی لوگ جن کو وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں، وہ اس وائرس کا شکار ہیں یا اس کے سبب مر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہں کہ بھارت میں صورتحال بہت خراب ہے۔
بھارت میں کرونا سے نمٹنے کے لیے ضروری ساز و سامان کی قلت ہے۔ کرونا ویکسین اور آکسیجن کی بھی کمی ہو رہی ہے جس کے سبب ایسی تنقید بھی ہو رہی ہے کہ انسانی بحران سے نمٹنے میں مدد کے لئے واشنگٹن کی طرف سست روی کا مظاہرہ کیا گیا۔
امریکہ نے شروع میں ویکسین بنانے میں درکار سپلائز کو ایکسپورٹ کرنے پر پابندی ہٹانے سے انکار کر دیا تھا، جس پر بھارت کے کئی راہنماوں کی جانب سے امریکہ پر تنقید کی گئی۔
اپریل میں جب کووڈ نائینٹین کی صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو امریکہ اور دیگر ممالک نے مدد کی پیشکش کی۔ ایسے میں جب جرمنی، سعودی عرب حتیٰ کہ بھارت کے روایتی حریف پاکستان نے بھارت کو مدد اور سپلائز کی پیشکش کر دی، امریکی راہنماؤں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ تاخیر سے کام لے رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اس سے پہلے بھارت کو صحت کے شعبے میں ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کی مدد فراہم کی تاکہ وہ عالمی وبا سے نمٹنے میں تیاری کر سکے۔
امریکہ کی طرف سے امداد میں تاخیر کو دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں بھی ایک رخنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے حالانکہ صدر بائیڈن سمیت امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے کھل کر بھارت کو مزید امداد کی پیشکش کی ہے اور صدر بائیڈن نے ٹویٹس کرنے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے۔
امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ویکسین بنانے میں استعمال ہونے والے خام مال کی ایکسپورٹ پر پابندی بھی ہٹا دے گا اور بھارت کو ذاتی تحفظ کے آلات، آکسیجن سپلائز، اینٹی وائرل اور دیگر طرح کے امدادی سامان بھجوائے گا تاکہ وائرس سے نمٹا جا سکے۔
نائب صدر کاملہ ہیرس جمعے کے روز بھارت کے لیے امریکہ کی طرف سے اس مشکل صورتحال میں اظہار یکجہتی کر رہی ہیں۔
ایسے میں جب دنیا بھر سے مختلف ممالک بھارت کے لیے امداد کا اعلان کر رہے ہیں، دنیا کی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کے تین بھارتی چیف ایگزیکٹو آفیسر نے کرونا کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے گلوبل ٹاسک فورس میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ان سی ای اوز میں گوگل کے سندر پچائی، ڈیلائٹے کے پنیت رنجن، ایڈوبے کے شانتانو نارائن شامل ہیں۔ یہ سٹئرنگ کمیٹی بھارت کو کووڈ نائنٹین سے کامیابی سے لڑنے میں مدد دینے کے لیے کارپوریٹ سیکٹر میں غیر معمولی اینیشی ایٹوز کا جائزہ لے گی۔