پاکستان کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت اور وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دینے والوں کے درمیان معاہدہ پسندیدہ آپشن نہیں تھا۔
اُنھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئٹر‘ پر ایک پیغام میں کہا کہ حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کیوں کہ اگر صورتِ حال مزید 24 گھنٹوں تک جاری رہتی تو فسادات ہو سکتے تھے۔
سیاسی و مذہبی جماعت 'تحریکِ لبیک یا رسول اللہ' کی قیادت میں اسلام آباد میں دھرنا تین ہفتوں تک جاری رہا تھا جس کے دوران مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے میں ناکامی پر حکومت نے گزشتہ ہفتے طاقت کے استعمال سے دھرنا ختم کرانے کی کوشش کی تھی۔
لیکن اس میں بھی پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کو مظاہرین کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جب کہ اس کارروائی کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔
بالآخر فوج کی مداخلت سے مظاہرین کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت وزیرِ قانون زاہد حامد مستعفی ہوگئے تھے۔
مظاہرین کا پہلا مطالبہ ہی یہ تھا کہ ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں مبینہ تبدیلی پر زاہد حامد کو کابینہ سے برطرف کیا جائے۔
مظاہرین کے ساتھ معاہدے پر نہ صرف فوج کے کردار پر بہت سے حلقوں بشمول سیاست دانوں اور عدلیہ کی طرف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں بلکہ حکومت بھی تنقید کی زد میں ہے کہ اُس نے تمام مطالبات مانتے ہوئے گھٹنے مظاہرین کے آگے ٹیک دیے۔
تاہم وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ملک کی سویلین اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر کام کیا تاکہ مذہب کو بنیاد بنا کر ملک بھر میں تشدد کا راستہ روکا جا سکے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا، ’’عدلیہ نے کہا کہ آپ کو کچھ کرنا پڑے گا تو تب پولیس کو حکومت نے استعمال کیا۔ پولیس بھی ناکام ہو گئی۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو ’’ادارے مضبوط کرنے چاہئیں، گورنینس مضبوط کرنی چاہیے، کرپشن کو ختم کرنا چاہیے، احتساب کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ لوگوں کے اندر ناہمواری کا احساس ختم ہو۔‘‘
وفاقی دارالحکومت میں تو دھرنا ختم ہو گیا لیکن لاہور میں تحریکِ لبیک ہی کے ایک دھڑے کا احتجاج تاحال جاری ہے جو صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ کے استعفٰی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
اگرچہ وفاقی دارالحکومت میں زندگی معمول پر آ چکی ہے لیکن اب بھی دھرنے، اس کے مقاصد اور اس کے حل کے طریقۂ کار پر بحث جاری ہے۔
ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی مظاہرین سے معاہدے اور اُن سے نمٹنے کے لیے حکومت کی حکمتِ عملی پر سوال اٹھایا ہے۔