ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں افغانستان کی جنگ کے فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پائیدار امن اور افغان تنازع کے سیاسی حل کے لیے تشدد کا خاتمہ اور جنگ بندی کریں۔
افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس کا آٹھواں اجلاس پیر کو ترکی میں ہوا۔ اجلاس میں 15 ملکوں کے اعلیٰ سفارت کار شریک تھے۔
کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں افغان جنگ کے فریقین پر بین الافغان مذاکرات کے لیے جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے تاکہ افغانستان کے سیاسی مستقبل کے لائحہ عمل اور مستقل جنگ بندی کے کسی سمجھوتے پر اتفاق ممکن ہو سکے۔
اعلامیے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کا راستہ بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہ مذاکرات ایسے ہوں جس میں تمام افغان حلقے شریک ہوں۔
خیال رہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا انعقاد ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تمام ملک اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ افغان تنازع کا پرامن اور پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔
اس کے ساتھ امن مذاکرات میں خواتین کی شرکت کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں علاقائی تعاون، اقتصادی ترقی، رابطوں کے فروغ، انسدادِ دہشت گردی اور منشیات کی روک تھام کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
قبل ازیں کانفرنس سے خطاب کے دوران افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے بعض ممالک کو اسی طرح کے خطرات کا سامنا ہے جس طرح افغانستان کو ہے اور ان خطرات سے مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔
کانفرنس کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بھی افغان امن عمل کی حمایت کا اظہار کیا۔ ان کے بقول خطے میں دہشت گردی سے نمٹنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ برائے جنوبی وسطی ایشیا ایلس ویلز کی قیادت میں امریکی وفد بھی کانفرنس میں شریک تھا۔
کانفرنس سے خطاب کے دوران ایلس ویلز نے کہا کہ افغانستان میں امن کا قیام امریکی حکومت کی ترجیح ہے۔ انہوں نے افغانستان اور علاقائی اسٹیک ہولڈرز کو ان اقدمات کی حمایت کا کہا جن کے نتیجے میں افغانستان میں تشدد میں کمی اور بین الافغان مذاکرات ممکن ہو سکیں۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کانفرنس سے خطاب کے دوران افغانستان میں امن و استحکام کے لیے دوبارہ کوششوں کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں بین الافغان امن مذاکرات ممکن ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے عناصر سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے جو اپنے مفادات کے لیے معاملات بگاڑ سکتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے امریکی سفارت کار ایلس ویلز سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کے تجارتی امور سے متعلق تبادلۂ خیال کیا۔
خیال رہے کہ ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس کا پہلا اجلاس 2011 میں ترکی کے شہر استنبول میں ہوا تھا۔ یہ تنظیم 15 ممالک پر مشتمل ہے جس میں افغانستان، آذربائیجان، چین، بھارت، ایران، قزاقستان، قرغزستان، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان شامل ہیں۔