امریکی حکومت کے کئی سابق اہلکاروں، فوجی افسران اور دیگر ذمہ داران نے اعتراف کیا ہے کہ افغان جنگ میں امریکہ کی ناکامی کے واضح شواہد موجود تھے لیکن اس کے باوجود امریکی عوام کو اس بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئیں۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے افغانستان میں تقریباً 20 سال سے جاری جنگ میں براہِ راست کردار ادا کرنے والے امریکی اور افغان حکام، امدادی اہلکاروں اور فوجی افسران کے انٹرویوز اور دیگر دستاویزات جمع کی ہیں۔
دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزات کے مطابق بیشتر امریکی حکام اس بات سے ہی لاعلم تھے کہ وہ افغانستان میں آخر موجود کیوں ہیں۔
تاہم امریکی محکمۂ دفاع نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ اس نے افغان جنگ سے متعلق عوام کو جان بوجھ کر گمراہ کیا۔
'واشنگٹن پوسٹ' نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دورِ صدارت میں وزیرِ دفاع رہنے والے ڈونلڈ رمز فیلڈ کی جانب سے لکھے گئے سیکڑوں میموز بھی حاصل کیے ہیں۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق ان خفیہ دستاویزات اور سابق فوجی کمانڈرز کے انٹرویوز امریکہ کے سابق صدور، فوجی سربراہان اور سفارت کاروں کے ان بیانات کی تردید کرتے ہیں جن میں امریکی عوام کو سالہا سال تک یہ بتایا جاتا رہا کہ امریکہ کو افغانستان میں کامیابی مل رہی ہے اور افغان جنگ امریکہ کے مفاد میں ہے۔
اخبار کے مطابق تھری اسٹار جنرل ڈگلس لیوٹ کا 2015 میں ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ ہم افغانستان سے متعلق مکمل طور پر آگاہ نہیں تھے اور ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں۔
ڈگلس لیوٹ سابق صدور جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما کے ادوارِ حکومت میں افغان جنگ سے متعلق امور پر وائٹ ہاؤس کے معاون تھے۔
'ہم شکست کھا رہے ہیں'
جنرل ڈگلس کے بقول، "ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم یہاں کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم جو کچھ کر رہے تھے اس کا ہمیں تصور بھی نہیں تھا۔"
سابق آرمی جنرل مائیکل فلن بھی انٹرویوز دینے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں بھی مختصر مدت کے لیے قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر خدمات انجام دیں۔
دوہزار پندرہ میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں جنرل مائیکل فلن کا کہنا تھا کہ سفارت کار سے لے کر نچلی سطح تک سب کہہ رہے ہیں کہ ہم افغانستان میں بہت زبردست کام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم شکست کھا رہے ہیں۔
امریکہ کے کئی سینئر حکام نے اپنے انٹرویوز کے دوران اعتراف کیا کہ طالبان حکومت کے خاتمے اور افغانستان سے القاعدہ کی جڑیں ختم کرنے کے باوجود امریکہ کی کوئی واضح حکمتِ عملی یا مقاصد نہیں تھے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے سینئر اہلکار برائے جنوبی ایشیا رچرڈ باؤچر کا 2015 میں دیے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں وہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حاصل ہی نہیں کیا جاسکتا۔
مغربی ممالک کے فوجی اتحاد 'نیٹو' کے ساتھ بطور امریکی معاون کام کرنے والے ایک سینئر افسر نے افغانستان میں امریکی حکمتِ عملی پر سوالات اٹھائے۔
دستاویزات میں اس افسر کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں کیا کر رہے ہیں؟ وہاں موجودگی کے مقاصد کیا ہیں؟ خواتین کے حقوق؟ ملک کی ترقی؟ یہ تمام چیزیں ہمارے ذہنوں میں بھی واضح نہیں تھیں۔
'ہم نے افغانستان میں کیا حاصل کیا'
جیفری ایگر ریٹائرڈ نیوی سیل ہیں اور وہ سابق صدر براک اوباما اور جارج ڈبلیو بش کے دورِ حکومت میں وائٹ ہاؤس میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
انہوں نے افغانستان میں امریکہ کی موجودگی اور اس جنگ پر آنے والے اخراجات پر کئی سوالات اٹھائے۔
جیفری ایگر کا کہنا تھا کہ 10 کھرب ڈالر کی خدمات کے عوض ہم نے افغانستان میں کیا حاصل کیا؟ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد وہ اپنی قبر میں ہنس رہے ہوں گے کہ ہم نے افغانستان میں کتنا سرمایہ گنوا دیا۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ان انٹرویوز سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی حکام جانتے تھے کہ افغانستان میں جاری جنگ جیتی نہیں جاسکتی اور وہ ناقابلِ تردید حقائق کو بھی چھپاتے رہے۔
اخبار کے مطابق یہ انٹرویوز اور دیگر دستاویزات 'لیسن لرنڈ' نامی منصوبے کا حصہ ہیں جنہیں افغانستان کی بحالی کے معاملات کے نگران اسپیشل انسپکٹر جنرل کے دفتر نے مرتب کیا تھا۔
انٹرویوز لینے والے فیڈرل ایجنسی کے سربراہ جان سوپکو نے تسلیم کیا کہ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے عوام سے تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا رہا۔
پینٹاگون کی تردید
امریکی محکمۂ دفاع نے 'واشنگٹن پوسٹ' کی رپورٹ میں کیے جانے والے دعووں کی تردید کی ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل تھامس کیمپ بیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پینٹاگون کی ایسی کوئی نیت نہیں تھی کہ کانگریس یا عوام سے حقائق چھپائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن پوسٹ نے جن انٹرویوز کی بنیاد پر اپنی رپورٹ مرتب کی ہے، وہ دراصل اسی لیے ریکارڈ کرائے گئے تھے کہ انہیں انسپکٹر جنرل اپنی ان رپورٹس میں شامل کر سکیں جو عوام کے لیے جاری کی جاتی ہیں۔