چند سال قبل جب ایک دن کمزوری کی وجہ سے میں اسکول میں کر گئی تو اسپتال میں ہونے والے بلڈ ٹیسٹ سے پتا چلا کہ مجھے ذیابیطس ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے انسولین لگنی ہے لیکن پہلےمیری والدہ رضامند نہیں تھیں۔ امی کا کہنا تھا کہ انسولین کے انجیکشن لگانا شروع کیے تو تمام عمر لگوانے پڑیں گے۔ کل کو شادی کیسے ہو گی۔ امی کو انسولین کی ضرورت سمجھانے میں ڈاکٹر کو کئی دن لگ گئے۔
یہ کہنا ہے اسلام آباد کی نورالعین کا جو آج سے پانچ سال قبل ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہوئیں اور تب سے روزانہ انسولین استعمال کر رہی ہیں۔
نورالعین کی عمر 19 سال ہے اور وہ 14 سال کی عمر میں اسکول میں گرکر بیہوش ہو گئی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بیہوشی کے واقعے سے کافی عرصہ قبل سے انہیں تھکاوٹ اور بے وقت نیند کی شکایت تھی۔ انہوں نے کئی بار گھر پر بتایا لیکن گھر والوں نے اسکول میں زیادہ کھیل کود اور گھر پر شرارتوں کو اس کی وجہ قرار دے کر توجہ نہ دی۔ مگر جب اس دن وہ گریں تو اسپتال میں ان کے مختلف ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے ایک ایچ بی اے ون سی لیول بھی تھا، جو بہت زیادہ تھا۔
ان کے بقول جب ڈاکٹر نے ان کی والدہ کو بتایا کہ انہیں ٹائپ ون ذیابیطس ہو گئی ہے اور انہیں انسولین لگے گی تو ان کی والدہ نے اس سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ والدہ نے کہا کہ اگر کوئی کھانے کی دوا ہے تو وہ دے دیں۔ انجیکشن روز نہیں لگ سکتے۔ ان کی سوچ تھی کہ ایسے میری شادی کیسے ہو گی لوگ مجھے بیمار سمجھیں گے۔
ذیابیطس کے مرض کے ماہر ڈاکٹر عمر وہاب کے مطابق یہ رویہ ہمارے ہاں عموماً پایا جاتا ہے جو مریض کی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس ایک آٹو امیون بیماری ہے جو کسی بھی عمر میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ البتہ اس کی زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ اگر کسی بچی کو یہ بیماری ہو تو والدین اس کے مستقبل کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔
انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے ذیابیطس کے مجموعی مریضوں میں سے ٹائپ ون کے مریضوں کی تعداد 10 فی صد کے قریب ہے۔
ان کے بقول آٹو امیون ری ایکشن کی وجہ سے جسم کے دفاعی نظام پر حملہ ہوتا ہے اور انسولین بنانے والا لبلبہ مکمل طور پر یا کسی حد تک کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ٹائپ ون کے آغاز کی وجوہات اب تک دریافت نہیں ہو سکیں لیکن سائنس دان کہتے ہیں کہ بعض جینیاتی اور ماحولیاتی اثرات کے ملاپ سے اس کا آغاز ہو سکتا ہے۔
آئی ڈی ایف کے مطابق ٹائپ ون ذیابیطس کسی بھی شخص کو کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔ البتہ اس ٹائپ کا زیادہ شکار بچے یا نوجوان ہو سکتے ہیں۔ اس مرض کا واحد علاج بلڈ گلوکوز لیول کو برقرار رکھنے کے لیے انسولین کا استعمال ہے۔ اگر کسی مریض کی رسائی انسولین تک نہ ہو تو اس کی موت بھی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر عمر وہاب کے مطابق بہت سے لوگوں کو اس بارے میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ خاندان والے ماں یا باپ کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہوتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے خاندان میں یہ مرض تھا اور وہ اب ان کے بچے میں آ گیا ہے۔
البتہ ان کے بقول ٹائپ ٹو ذیابیطس نسل در نسل منتقل نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ضروری نہیں کہ اگر کسی مرد یا عورت کو ٹائپ ون ذیابیطس ہو تو ان کے بچوں میں بھی یہ مرض پایا جائے۔
آئی ڈی ایف کے مطابق ماحولیاتی عناصر اور بعض وائرل انفکیشنز بھی ٹائپ ون ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عمر وہاب کہتے ہیں کہ ٹائپ ون ذیابیطس کی بیشتر علامات ٹائپ ٹو ذیابیطس جیسی ہی ہیں۔ جس میں غیر معمولی طور پر پیاس لگنا، اچانک وزن کا گر جانا، بار بار پیشاب کی حاجت ہونا، تھکاوٹ اور جسم میں طاقت کی کمی محسوس ہونا، لگاتار بھوک کا بڑھنا، آنکھوں کا دھندلا پن شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس مرض کا واحد علاج انسولین ہی ہے۔ ٹائپ ٹو میں کھانے والی ادویات دی جا سکتی ہے لیکن ٹائپ ون میں انسولین کے انجیکشن دن میں دو سے تین بار لینا پڑ سکتے ہیں۔
SEE ALSO: خوراک سے چینی کم کر کے کن بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے؟ڈاکٹر عمر کے بقول ٹائپ ٹو کے مقابلے میں ٹائپ ون کے لیے والدین کی آگاہی بہت ضروری ہے۔ بہت سے والدین بچے کو دن میں تین بار سوئی لگا کر خون نکالنے اور گلوگوز لیول چیک کرنے اور پھر سوئی لگا کو انسولین دینے کے خیال سے پریشان ہو جاتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ایسے بچوں کے لیے بہت ضروری ہے کیوں کہ بچہ خود اپنا خیال نہیں کر سکتا۔ وہ خود اپنی خوراک اور میٹھی چیزوں سے احتیاط نہیں کرسکتا۔ اس میں والدین کو ہی زیادہ محنت اور کوشش کرنا ہو گی۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں چودہ نومبر کو عالمی یومِ ذیابیطس منایا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد پچاس کروڑ سے زائد ہے۔
آئی ڈی ایف کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تین کروڑ 29 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سال 2011 میں اس مرض سے ہلاکتوں کی تعداد 65 ہزار کے قریب تھی جو اگلے دس برسوں یعنی 2021 میں بڑھ کر تین لاکھ 96 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔