صحافی اور مصنف آتش تاثیر کا کہنا ہے کہ بھارت نے ان سے ان کا خاندان
چھین لیا ہے۔ یہ بات انہوں نے نیویارک میں وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔ حال ہی میں انڈیا نے بھارت میں پلے بڑھے مگر برطانوی شہری آتش تاثیر سے ان کو بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو دیا جانے والا اوورسیز سیٹیزن شپ آف انڈیا یا او سی آئی کا سٹیٹس واپس لے لیا ہے۔
بھارتی حکومت نے ٹوئٹر پر تصدیق کی کہ چونکہ آتش اور ان کے خاندان نے ان کے
پاکستانی والد اور پیپلز پارٹی کے مرحوم لیڈر سلمان تاثیر کے بارے میں حکومت کو مطلع نہیں کیا تھا۔ اس لیے بھارتی حکومت کے ساتھ دھوکہ دہی کرنے کے باعث آتش کا او سی آئی واپس لیا جا رہا ہے۔ آتش کی والدہ اور سلمان تاثیر کی شادی کبھی نہیں ہوئی۔
چار کتابوں کے مصنف اور اپنے والد پر مضامین لکھنے والے صحافی آتش تاثیر نے کہا، “جب میں نے سلمان تاثر کے بارے میں متعدد مضامین لکھے تو کسی کو پتہ نہیں چلا کہ میرے والد کون ہیں؟ میں نے اور میری والدہ نے کبھی اس حقیقت کو نہیں چھپایا تو پھر جھوٹ یا فراڈ کیسا؟
انہوں نے کہا، “دہلی میں میری پرورش میری ماں اور نانی نے بالکل اکیلے کی ہے۔ میرے والد نے کبھی مدد نہیں کی۔ میری تو اپنے والد سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب میں اکیس برس کا تھا۔ ان کا میری زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ میرا واحد خاندان صرف دہلی میں ہے۔ تو پھر میرا سٹیٹس کیوں چھینا گیا۔”
Your browser doesn’t support HTML5
نیویارک میں مقیم 38 سالہ آتش تاثیر برطانیہ میں پیدا ہوئے اور دو برس کی عمر میں ان کی والدہ مشہور صحافی تلوین سنگھ انہیں دہلی لے گئیں۔ وہ اب دہلی میں ہی مقیم ہیں۔
ان کا کہنا تھا “بھارت نے مجھ سے میرا خاندان چھین لیا ہے۔ ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ میرے لیے واپس جانا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جو اعتماد اور بھروسا میری سنگل ماں اور نانی نے ایک بن باپ کے بچے میں پیدا کیا، بھارت نے وہ چھین لیا ہے۔”
وہ بھارتی حکومت کے اس اقدام کی وجہ مودی سرکار کا غصہ اور سینسرشپ بتاتے ہیں۔ انہوں نے کہا “ اس سے پہلے کبھی مجھے بھارت جانے سے نہیں روکا گیا۔ کبھی میرے او سی آئی میں رکاوٹ نہیں ڈالی کہ اس کا باپ پاکستانی ہے۔ تو اب کیا ہوا؟
انہوں نے مزید کہا، “مودی سرکار کی ٹوئٹر آرمی اسی وقت سے میرے پیچھے لگی ہے جب بھارتی انتخابات سے پہلے میں نے ٹائم میگزین کے لیے ایک آرٹیکل لکھا، جس میں میں نے نریندر مودی پر کڑی تنقید کی۔ صرف یہ ہی نہیں اس کے بعد انڈیا کے کونسل جنرل نے ٹائم میگزین سے شکایت کی۔ مجھے دھمکیاں ملنے لگیں۔ میرا وکی پیڈیا پیچ ہیک کرنے کی کوشش ہوئیں۔ لیکن جب بی جے پی کے ترجمان اور خود مودی صاحب نے مجھے پاکستانی کہنا شروع کیا تو تب مجھے احساس ہوا کہ اب کوئی نہ کوئی نقصان ضرور ہو گا اور دیکھ لیجئے، الیکشن کے محض تین ماہ بعد کیا ہوا۔”
انہیں دکھ ان کی والدہ کی پریشانی کا ہے۔ وہ کہتے ہیں، “میری ماں بغیر شادی کیے ایک مسلمان باپ کے بچے کو 80 کی دہائی میں بھارت لے کر آئیں۔ انہوں نے سچائی کسی سے نہیں چھپائی۔ میری نانی نے انہیں قبول کیا۔ اکیلے
دونوں خواتین نے معاشرے کا مقابلہ کیا اور مالی جدوجہد کی اور آج ان کا بیٹا ان سے ملنے دہلی نہیں جا سکتا۔”
بھارت میں انسانی حقوق اور صحافت پر لگی قدغنوں کے بارے میں آتش تاثیر نے کہا، “کانگریس تو اب بس نام کی رہ گئی ہے۔ بھارت کا مضبوط جمہوری نظام کمزور ہو رہا ہے۔ صحافیوں کو تنقید کرنے پر مارا جا رہا ہے۔ برداشت اور اختلاف کرنے کا حق بھارت کی روح کا حصہ تھا مگر حکومت نے اسے بڑی حد تک دبا دیا ہے۔”