ایران میں گزشتہ سال اخلاقی پولیس کی تحویل میں خاتون مہسا امینی کی موت کی پہلی برسی سے قبل انسانی حقوق کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔
جمعے کو 12 افراد کی گرفتاری کی اطلاع کے بعدصوبہ گیلان میں حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد 13 ہو گئی ہے۔
صوبے میں قانون نافذ کرنے والی فورس کے کمانڈر عزیز اللہ مالکی نے تصدیق کی کہ تازہ ترین گرفتاریاں قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں کے الزام میں کی گئی ہیں۔
تاہم سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق کمانڈر مالکی نےحراست میں لیے گئے افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی۔
فورس کے کمانڈر نے دعویٰ کیا کہ گرفتار افراد کے ٹھکانوں سے نظام مخالف پروپیگنڈے کے لیے کافی مقدار میں آلات اور مواد برآمد ہوا ہے جب کہ مواصلاتی آلات بھی ضبط کیے گئے تھے۔
انہوں نے مہسا امینی کی موت کی برسی کے حوالے سے بیان میں کہا کہ پولیس نے گزشتہ سال کے واقعات کی برسی کے موقع پر مختلف شہروں میں مخصوص افراد سے منسوب غیر قانونی طرز عمل کی اطلاعات پر کارروائی کی۔
خیال رہے کہ 22 سالہ خاتون مہسا امینی کو ایک اخلاقی پولیس نے تہران میں لباس کے کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گزشتہ سال حراست میں لیا تھا جب کہ دورانِ حراست گزشتہ برس ستمبر میں ان کی موت ہوئی تھی۔
مہسا امینی کے قریبی لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گیا تھا۔
واضح رہے کہ آئندہ ماہ کی 16 تاریخ کو ان کی موت کی برسی ہے۔
رپورٹس کے مطابق ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے دوران گرفتار یا مارے گئے افراد کے اہلِ خانہ کے افراد کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔
زیرِ حراست افراد کے خلاف قومی سلامتی کے خلاف کارروائیوں کے ارتکاب میں سازش اور تعاون کے ساتھ ساتھ مخالف دھڑوں کے حق میں نظام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی کوششوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
ایرانی انسانی حقوق کی مہم کے نام سے کام کرنے والی تنظیم نے گیلان میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں کے خلاف پولیس کریک ڈاون کو من مانی حراستیں قرار دیا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم میڈیا پلیٹ فارم بیدار زانی نے اس سے قبل گزشتہ ہفتے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 12 خواتین کارکنوں اور ایک سیاسی کارکن کی گرفتاری کی اطلاع دی تھی۔