ایران میں حکام نے دارالحکومت تہران میں بیک وقت 30 بم نصب ہونے اور ان کو ناکارہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بم نصب کرنے والے 28 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ تہران میں نصب کیے گئے 30 بم ناکارہ بنائے جا چکے ہیں اگر ان کو ناکارہ نہ بنایا جاتا تو یہ تمام ایک ساتھ پھٹ سکتے تھے۔
رپورٹس کے مطابق حکام نے جن افراد کو حراست میں لیا ہے ان کا تعلق شدت پسند تنظیم ‘داعش’سے بتایا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ایران کی انٹیلی جینس کی وزارت نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ کچھ افراد کا تعلق داعش کے ساتھ ہے۔
زیرِ حراست افراد کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کے پاکستان، شام اور عراق کے علاقے کردستان میں تکفیری گروہوں سے وابستہ ہونے کی تاریخ رہی ہے۔
واضح رہے ماضی میں داعش نے ایران میں بعض تخریبی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں 2017 میں دو بم دھماکے بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان میں داعش سمیت 20 دہشت گروہوں کی موجودگی بڑا خطرہ ہے: اقوام متحدہان بم دھماکوں میں ایران کی پارلیمان اور اسلامی جمہوریہ کے بانی آیت اللہ خمینی کے مقبرے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
داعش نے گزشتہ اکتوبر میں شیراز میں ایک مزار پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں 15 افراد مارے گئے تھے۔
شدت پسند تنظیم داعش نے 2014 میں شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کرکے خود ساختہ خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا ۔
عراق میں تین سال تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد 2017 میں داعش کی شکست کا اعلان کیا گیا تھا ۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس تین سالہ لڑائی میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے اور متعدد شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے تھے لیکن اس کے سلیپر سیل دونوں ممالک میں اب بھی موجود ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود داعش عراق اور شام میں پانچ سے سات ہزار ارکان کی کمان سنبھالے ہوئے ہے۔
ان افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں زیادہ تر افراد جنگجو ہیں۔
SEE ALSO: شام میں داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کا انتباہداعش کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے خود حملوں میں کمی کی ہے تاکہ نئے ارکان کی بھرتی اور تنظیم نو کے لیے حالات پیدا سازگار ہو سکیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔