ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک بیان میں کہا ہےکہ تہران "یمن کے متعدد شہروں پر آج صبح امریکہ اور برطانیہ کے فوجی حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ یہ حملے "من مانی کارروائی، یمن کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی" تھے۔
امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے حوثی باغیوں کے عسکری ٹھکانوں پر جمعرات کی شب فضائی اور بحری راستوں سے حملے کیے ہیں اور خبردار کیا ہے کہ اگر حوثی بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے سے باز نہ آئے تو انہیں دوبارہ ہدف بنایا جائے گا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے فضائی حملوں کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ان کا مقصد تناؤ کو کم کرنا اور بحیرہ احمر میں استحکام کو بحال کرنا ہے"۔
SEE ALSO: امریکہ اور برطانیہ کے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملےخبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یمن نے ملک کے مختلف شہروں میں حملوں کی تصدیق کی ہے جب کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعرات کی شب ایک بیان میں کہا کہ یہ حملے واضح پیغام ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے فوجیوں اور بحیرۂ احمر کے راستے ہونے والی تجارت پر حوثیوں کے حملوں کو برداشت نہیں کریں گے۔
امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ حملوں میں حوثیوں کے عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں خاص طور پر ان کے ڈرونز، بیلسٹک، کروز میزائل، کوسٹل راڈار اور ایئر سرویلیئنس کی تنصیبات شامل ہیں۔
حوثیوں کے حملوں نے اہم سمندری راستے سے گزرنے والے بحری ٹریفک کو درہم برہم کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں کچھ کمپنیوں نے اس راستے سے گزرنا معطل کر دیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کنعانی نے انتباہ کیا کہ یمن پر حملوں کا "خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کو ہوا دینے اور غزہ میں "جرائم سے دنیا کی توجہ ہٹانے" کے علاوہ، جہاں اسرائیل فلسطینی علاقے کے حماس کے حکمرانوں سے لڑ رہا ہے،کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترجمان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ "جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے" اقدام کرے۔
اے ایف پی کے صحافی کے مطابق تہران میں نماز جمعہ کے بعد سینکڑوں افراد نے غزہ اور یمن کے عوام کی حمایت میں جلوس نکالا اور امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے۔
سرکاری ٹیلی ویژن نے کئی دوسرے ایرانی شہروں میں بھی اسی طرح کی ریلیز کی فوٹیج نشر کی اور جمعے کے بعد دارالحکومت میں برطانوی سفارت خانے کے باہر یمن پر حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔
یمن میں امریکہ اور برطانیہ کے حملوں سے چند گھنٹے قبل امریکی فوج نے کہا تھا کہ حوثیوں نے خلیجِ عدن میں اینٹی شپ بیلسٹک میزائل فائر کیا تھا۔
دو روز قبل یعنی نو جنوری کو ہی امریکہ اور برطانیہ کی نیول فورسز نے حوثیوں کے 21 ڈرونز اور میزائل مار گرائے تھے۔
حوثیوں کے اعلیٰ عہدیدار الی القہوم نے سماجی رابطے کی سائٹ 'ایکس' پر جاری ایک بیان میں جوابی حملوں کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ جنگ امریکہ اور برطانیہ کے تصورات اور توقعات سے بڑھ کر مزید پھیلے گی۔
اسرائیل اور حماس کی جنگ 7 اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسندوں کے جنوبی اسرائیل پر حملوں کے ساتھ شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں تقریباً 1140 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
SEE ALSO: سلامتی کونسل کاحوثیوں سے حملے بند کرنے کا مطالبہ، بلنکن کا نتائج کے بارے میں انتباہایران نے جو حماس کی مالی اور عسکری مدد کرتا ہے، اس حملے کو سراہا تھا، لیکن اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
حماس کے زیر اقتدار علاقے میں وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل نے ایک مسلسل فوجی مہم کے ساتھ جواب دیا ہے جس میں محصور غزہ کی پٹی میں 23700 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
ایران نے بارہا تنازعات کے وسیع ہونے سے خبردار کیا ہے۔ وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے نومبر میں کہا تھا کہ جنگ کی شدت نے اس کی توسیع کو "ناگزیر" بنا دیا ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں نے، جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف تہران سے منسلک علاقائی "مزاحمت کے محور " کا حصہ ہیں۔ 2014 میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا اور اب ملک کے بڑے حصے پر قابض ہیں۔
واشنگٹن نے کہا تھا کہ ایران حوثیوں کے سمندری حملوں میں " ملوث" ہے، اس دعوے کی تہران نے تردید کی ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ ایران ایسے "مزاحمتی گروپوں کی حمایت کرنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہے" تاہم وہ اس پر زور دیتا ہے کہ یہ گروپ "اپنی رائے، فیصلے اور عمل میں آزاد ہیں۔"
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔