امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کم ہوگی یا نہیں۔ اور آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے، اور یہ تعطل کب تک قائم رہے گا، عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے کے بقول یہ صورتحال بہت پیچیدہ ہے ، خاص طور سے ایسی صورت حال میں جب ایک جانب تو مشرق وسطیٰ اور خلیج کے کئی ملکوں سے اسرائیل کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ دوسری جانب ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان دو ہزار پندرہ میں ہونے والے اس ایٹمی معاہدے کو بحال کرنے کے لئے جس سے دو ہزار اٹھارہ میں اس وقت کے امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کی حکومت الگ ہو گئی تھی، بائیڈن حکومت اور ایران کے درمیان مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات گزشتہ ستمبر سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔
اسی صورت حال کے پس منظر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ کو دو ہزار پندرہ کے کے معاہدے کو بحال کر نے کے لئے اپنی خیر سگالی اور عزم کو ثابت کرنا چاہئیے۔
خیال رہے کہ دو ہزار اکیس میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے تحت ایران نے اپنے اوپر عائد امریکی، یورپی اور اقوام متحدہ کی تعزیرات میں نرمی کے عوض اپنے جوہری پروگرام کو محدود کردیا تھا۔ لیکن یہ مذاگرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے اور گزشتہ ستمبر سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔
تاہم کشیدگی کم کرنے کی ایک کوشش میں قطر کی وساطت سے امریکہ اور ایران کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ ہوا ہے،جسکے تحت دونوں نے ایک دوسرے کے پانچ پانچ قیدی رہا کردئیے اور ایران کے جنوبی کوریا میں منجمد چھ ارب ڈالر کے اثاثے بھی امریکہ نے واگزار کر دئیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر کامران بخاری ، نیو لائن انسٹیٹیوٹ برائے پراسپیرٹی اینڈ پالیسی میں سینئیر ڈائیریکٹر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ایران پر اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی دباؤ بہت زیادہ ہے۔ خاص طور سے حکومت بلکہ مجموعی طور پر ریاست کے خلاف عوام میں غم و غصہ بہت زیادہ ہے۔ اور وہ اس دباؤ کو محسوس بھی کر رہے ہیں۔
اور رئیسی صاحب محسوس کرتے ہیں کہ اگر ان کو اگلا انتخاب جیتنا ہے تو انہیں معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا اور معیشت کی درستگی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ایران پر عاید تعزیرات میں کچھ نرمی ہو، اور یہ نرمی اسی وقت مل سکتی ہےجب عالمی برادری ایران کے جوہری عزائم کے بارے میں مطمئن ہو جائے۔
یعنی بہ الفاظ دیگر ایران کو سمجھوتے تو کرنے پڑیں گے اور اسی لئے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے نتیجے میں جو فضا بنی ہے اسی حوالے سے ایران بات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
خیال رہے کہ خود امریکہ میں بھی ایران کے حوالے سے حکومت پر دباؤ ہے۔ تو کیا ایسے ماحول میں خاص طور سے جب کہ یہاں انتخاب کا ماحول ہے، امریکہ اس حوالے سے کوئی بڑا قدم اٹھا سکتا ہے؟
کامران بخاری سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں اسوقت پیچیدہ نوعیت کی سیاست ہے، انتخابی ماحول کی گرما گرمی ہے اور ایسے میں بائیڈن وائٹ ہاؤس کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے گریز کرے گا۔ اور بقول ان کے اس حوالے سےاگر کوئی سمجھوتہ ہو گا تو امریکی انتخابات کے بعد ہی ہو سکے گا ۔
کامران بخاری نے کہا کہ کہ ایرانی بھی اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور صدر رئیسی کی اقوام متحدہ میں تقریر اگر اسی سیاق وسباق میں دیکھی جائے تو اندازہ ہو گا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ پیش رفت ہو سکے تواندرون ملک ان کی پوزیشن میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔ کیونکہ پھر آنے والے حالات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخاب میں کون کامیاب ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں جبکہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا دائرہ اثر بڑھ رہاہے۔ خلیج کے کئی ملکوں سے اسکے سفارتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب سے بھی اسی قربت بڑھ رہی ہے۔ کیا ایران، اسرائیل کے حوالے سے اپنے اعلان کردہ موقف پر قائم رہ سکے گا؟
کامران بخاری کہتے ہیں کہ ایران میں اس وقت جو صورت حال ہے۔ حکومت کی جس سطح کی کی مخالفت ہے۔ جو ماحول بن رہا ہے۔ اس میں تبدیلیوں کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ انہوں نے زور دےکر کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ تبدیلی آئے گی۔ لیکن تبدیلی کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اسرائیل نے آذربائیجان اور ترکمانستان کے ساتھ اپنے تعلقات اور بہتر کئے ہیں اور ایران کی شمالی سرحدیں ان دونوں ممالک سے ملتی ہیں۔ تو یہ اندرونی، بیرونی اور علاقائی دباؤ ایران کے موقف میں آنے والے دنوں میں تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ کہنا فی الحال مشکل ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔
ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جیسے ہی ایرانی صدر رئیسی نے تقریر شروع کی،اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاڈ اردان نے جنرل اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ انکے ہاتھ میں امینی کی تصویر تھی جسے وہ نکلتے ہوئے لہرا رہے تھے۔
مہسا امینی وہ نوجوان ایرانی خاتون تھیں، جنکی ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد ایران میں احتجاج اور مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ختم کرنے کی کارروائی کے دوران سینکڑوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے اور بے شمار لوگ گرفتار کئے گئے۔