ایرانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ دارالحکومت تہران میں کیے گئے بم حملے میں ایک یونی ورسٹی پروفیسر ہلاک ہوگئے ہیں جو بطورِ سائنس دان ملک کے جوہری پروگرام سے بھی منسلک تھے۔
ایران کی خبر رساں ایجنسی 'فارس' کے مطابق دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے پروفیسر مصطفیٰ احمدی روشن کی گاڑی کے نیچے بم نصب کیا تھا جس کے پھٹنے سے وہ اور ان کا ڈرائیور ہلاک ہوگئے۔
ایجنسی کے مطابق واقعہ تہران کے شمالی حصے میں پیش آیا جس میں ایک راہ گیر زخمی بھی ہوا۔
ایرانی حکام کی جانب سے بم حملے کی ذمہ داری امریکہ اور اسرائیل پرعائد کی گئی ہے، تاہم دونوں ممالک کے حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
واقعہ کے بعد ایران کے نائب صدر محمد رضا رحیمی کا سرکاری ٹیلی ویژن سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات سے ان کے ملک کو جوہری سرگرمیوں میں پیش رفت سے نہیں روکا جاسکتا۔
وہائٹ ہائوس کے ترجمان ٹومی ویٹر نے کہا ہے کہ امریکہ مذکورہ حملے اور تشدد کے تمام واقعات کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔
دریں اثنا، بدھ کو واشنگٹن میں قطر کے وزیرِ خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی ایران کے الزام کی تردید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ایران کے اندر ہونے والے کسی بھی پرتشدد واقعہ میں ملوث نہیں۔
'فارس' کے مطابق 32 سالہ مقتول پروفیسر 'نطانز' کی جوہری تنصیب میں ایک شعبے کے سربراہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کا ایک اہم مرکز ہے۔
ایران برسرِ زمین قائم اس مرکز میں نسبتاً کم سطح پر یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔
امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے بھی تہران بم حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
تاہم واقعہ سے ایک روز قبل منگل کو اراکینِ پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کےسربراہ لیفٹننٹ جنرل بینی گانتاز نے 2012ء کو ایران کے لیے ایک "مشکل سال" قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس برس ایران کے ساتھ غیرفطری انداز میں معاملات پیش آئیں گے۔
حالیہ برسوں کے دوران کیے گئے حملوں میں ایران کے کئی جوہری سائنس دان ہلاک یا زخمی ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل 2010ء کے اختتام پر بھی کاروں میں نصب بموں کے اسی نوعیت کے دھماکے ہوئے تھے جن کا الزام حکام نے موٹرسائیکل سواروں پر عائد کیا تھا۔
بدھ کو یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب ایک برس قبل اسی نوعیت کے ایک واقعے میں ہلاک ہونے والے ایک سینئر جوہری سائنسدان کی برسی منائی جا رہی ہے۔