ایران میں پولیس کی حراست کے دوران مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے والے ایک نوجوان کو مبینہ جرائم کے الزام میں پھانسی دیے جانے کے بعد بین الاقوامی غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے جمعرات کو خبر دی تھی کہ23 سالہ محسن شکاری کو تہران میں ایک سڑک پر رکاوٹ کھڑی کرنے اور سیکیورٹی فورس کے ایک رکن پر حملہ کرنے کے جرم میں جمعرات کی صبح پھانسی دے دی گئی۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جاوید رحمان نے اسلامی جمہوریہ ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال پر جمعرات کو برطانیہ سے ایک انٹرویو میں وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو بتایا کہ محسن شکاری کی پھانسی پر وہ صدمے اور غصے کی کیفیت میں ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایران میں کئی مظاہرین کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید مظاہرین کو پھانسی دے دی جائے گی ۔
SEE ALSO: ایران میں مسلسل احتجاج، حکومت کا اخلاقی پولیس ختم کرنے کا فیصلہایرانی عدالتوں نے مظاہروں کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے افراد میں سے کم از کم دس کو سزائے موت کا حکم جاری کیا ہے، اور شکاری کو دی جانے والی پھانسی ، سزائے موت کے حکم پر پہلا عمل درآمد تھا ۔ رحمان نے کہا کہ اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ شکاری پر تشدد کیا گیا تھا اور انہیں وکیل تک رسائی سے انکار کیا گیا تھا۔
جج ابوالقاسم سلاوتی کو سخت سزائیں سنانے کے حوالے سے امریکی پابندیوں کا سامنا ہے، انہوں نے ہی شکاری پر چلائے جانے والے مقدمے کی قیادت کی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شکاری کی پھانسی کو خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک انتہائی غیر منصفانہ دھوکہ دہی کا مقدمہ تھا۔ شکاری کو 25 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا اور 8 دسمبر کو پھانسی دے دی گئی ۔
SEE ALSO: ایران کا حالیہ مظاہروں میں 300 سے زائد ہلاکتوں کا اعترافاوسلو میں قائم گروپ ایران ہیومن رائٹس’ ‘ آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے سخت بین الاقوامی ردعمل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں خوف ہے کہ مظاہرین کو بڑے پیمانے پر سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واشنگٹن نے شکاری کی پھانسی کو موجودہ صورت حال میں ایک سنگین اضافہ قرار دیا ۔ اٹلی کے وزیر اعظم اور جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے اسےناقابل قبول جبر قرار دیا ہے۔
ایران میں انسانی حقوق کی مہم کے ڈائریکٹر ہادی غیمی نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو بتایا کہ ایرانی عدالتوں سے دی گئی سزائے موت کی تمام سزائیں سیاسی قتل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایران میں ستمبر کے مہینے میں ایک 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کو اخلاقیات کے نفاذ کی ذمہ دار پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران جا رہی تھی۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے علما کی حکومت کے مقرر کردہ لباس کے ضابطوں کے مطابق اپنے سر کے بالوں کو درست طریقے سے چھپایا ہوا نہیں ہے۔
مہسا پولیس کی حراست کےدوران ہلاک ہو گئی تھیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسے دل کا دورہ پڑا تھا جب کہ اس کے والدین نے الزام لگایا کہ مہسا کو تشدد کر کے ہلاک کیا گیا۔ مہسا کی ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں شروع ہونے والے مظاہروں کو دو مہینے سے زیادہ ہو چکے ہیں جن میں پولیس تشدد سے سینکروں افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ گرفتار کیے گئے مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
(وی اے نیوز)