ایران نے پہلی بار یہ اعتراف کیا ہے کہ کرد نژاد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں، جنہیں اب دو ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں ، اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔
ایران میں قائم علما کی حکومت نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے ، جنہیں وہ فسادات کا نام دیتی ہے، ریاستی سیکیورٹی فورسز کو تعینات کیا ہے۔
22 سالہ کرد نژاد خاتون کو لباس سے متعلق حکومتی ضابطے نافذ کرنے والی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران آ رہی تھی۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ اس نے اپنے سر کو درست طور پر ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔
مہسا پولیس کی حراست کے دوران تین دن کے بعد ہلاک ہو گئی تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہلاکت کی وجہ دل کا دورہ تھا جب کہ مہسا کے والدین کا الزام ہے کہ وہ پولیس کے تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہوئی۔
نیم فوجی پاسداران انقلاب کور (آئی آر جی سی )کے بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے مہر نیوز ایجنسی کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ اس خاتون کی ہلاکت سے ملک میں ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔
نیم فوجی پاسداران انقلاب کورکے ایئرو اسپیس ڈویژن کے سربراہ حاجی زادہ کہتے ہیں کہ میرے پاس تازہ ترین اعداد و شمار نہیں ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ شاید تین سو سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں جن میں سے کئی ایک ملک کے بہترین فرزند تھے۔
ان ہلاکتوں میں مظاہرین اور احتجاج کو روکنے پر تعینات پولیس اہل کار، ملیشیا کے ارکان اور فوجی بھی شامل ہیں۔
جب کہ انسانی حقوق سے متعلق اوسلو میں قائم ایک غیرسرکاری ایرانی تنظیم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 416 ہے۔
ایرانی تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والو ں کی اس تعداد میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کے دوران پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے قریب جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورت حال کے دوران مارے گئے۔
ایران کی عدلیہ کا کہنا ہے گرفتار ہونے والے مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں 40 کے قریب غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
عدلیہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دو ہزار سےزیادہ لوگوں پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے جن میں سے چھ کو پھانسی کی سزاسنائی گئی ہے۔ جس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔
ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب میں بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور رضا شاہ پہلوی جلاوطن ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے ایران میں نافذ کردہ قانون کے تحت خواتین کے لباس کسے متعلق ضابطوں کے تحت اپنے سر کے بال چھپانے کے لیےھجاب پہننا ضروری ہے۔
لباس کے ضابطوں پر عمل درآمد کے لیے ایک خصوصی پولیس فورس قائم کی گئی ہے جو شہر بھر میں گشت کرتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرتی ہے۔
ایران کی حکومت مغربی طاقتوں ، اسرائیل اور عراق میں مقیم جلاوطن کرد گروپوں پر مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر لوگوں کو اکسانے اور ہوا دینے کا الزام عائد کرتی ہے۔
اس رپورٹ کے لیے اے ایف پی اور اے پی سے کچھ معلومات لی گئی ہیں۔