|
ایران پچھچلے ہفتے کے اسرائیلی حملے کا جس طریقے سے جواب دے گا وہ اس بات کا تعین کرے گا کہ آیاا مشرق وسطی تنازعہ ایک کھلم کھلا جنگ کی شکل اختیار کرتا ہے یا وہ پہلے ہی تباہ کن اور عدم استحکام پیدا کرنے والی موجودہ صورت میں جاری رہتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا جلد از وقت ہوگا کہ ایرانی رہنما کس راہ کو اپنائیں گے۔
ہو سکتا ہے کہ ابھی تہران فوری طور پر زور دار طریقے سے اسرائیلی حملے کا جواب نہ دے۔ ماہرین کے مطابق ایسا اس سوچ کے باعث ہوگا کہ ایران اپنی کمزوری کو عیاں نہیں کرنا چاہے گا کیوںکہ سخت جواب کی صورت میں اسرائیل پہلے سے زیادہ بھرپور ردعمل دے سکتا ہے۔
لندن میں چیٹھم ہاؤس تھنک ٹینک کے مشرق وسطی پروگرام کی ڈائریکٹر صنم وکیل کہتی ہیں، ایران اسرائیلی حملے کے اثرات کو کم کر کے پیش کرےگا جبکہ حقیقت میں اثرات کافی سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا عسکری اور اقتصادی مجبوریاں ایران کے آڑے آتی ہیں جبکہ امریکہ کے انتخابات سے جنم لینے والی غیریقینی صورتحال اور خطے میں امریکی پالیسی بھی اہم معاملہ ہے۔
SEE ALSO: ایران کی اسرائیلی حملے میں ایک سویلین ہلاکت کی تصدیق، مؤثر جواب دینے کا بھی اعلانایک ایسے وقت میں جب مشرق وسطی میں جنگیں جاری ہیں، ایران کے اصلاح پسند صدر مسعود پیزیژ نے عندیا دیا ہے کہ ان کا ملک بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی لانے کے لیے امریکہ کے ساتھ ایٹمی ڈیل چاہتا ہے۔
ایران کی طرف سے نپا تلا بیان تہران کو اسپیس فراہم کرتا ہے کہ وہ اسرائیلی کارروائی کے بعد لڑائی میں مزید اضافے سے گریز کرے۔ بیان سے یہ مراد لی گئی ہے کہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی اسرائیل کے خلاف ردعمل سے زیادہ اہم ہے۔
ایران کے طاقتور رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے، جو اہم معاملات پر آخری فیصلے کے مجاز ہیں، اسرائیلی حملے کے بعد ایک سوچا سمجھا بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حملے کو نہ تو بڑھا چڑھا کردیکھا جائے اور نہ ہی اسے کم کر کے پیش کیا جائے۔ بیان میں انہوں نے اسرائیل کے جوابی حملے کے ردعمل میں عسکری کارروئی کا ذکر نہیں کیا۔
SEE ALSO: غزہ میں اسرائیلی حملے میں عورتوں اور بچوں سمیت 100 فلسطینی ہلاکاسرائیل کے ہفتے کے روز ہونے والے فضائی حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق ایران کی میزائیل بنانے والی تننصیبات اور میزائیل بیٹریز کو نشانہ بنایا گیا۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق سیٹیلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیلی حملے میں تہران کے جنوب میں واقع پرچن عسکری بیس کو نقصان پہچا۔ اس بیس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ماضی میں ایران کے ایٹمی پروگرام سے منسلک تھا۔
حملے میں نشانہ بننے والے دوسرے اڈے کا تعلق بیلسٹک میزائیل پروگرام سے ہے۔
تاہم، بین الاقوامی ایٹمی توانائی کے ادارے کے رہنما رافیل میریانو گروسی کے مطابق ایران کی موجودہ ایٹمی تنصیبات کو اسرائیلی حملے میں نشانہ نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے ایکس پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات اسرائیلی حملے سے متاثر نہیں ہوئیں۔
SEE ALSO: ایران کے فوجی اہداف پر نپے تلے حملے کیے ہیں: اسرائیلی فوجاسرائیل جارحانہ انداز میں عسکریت پسند گروپ حزب اللہ سے لڑائی کررہا ہے ۔ اسرائیل نے گروپ کے رہنما کو ہلاک کردیا ہے اور دھماکہ خیز پیجر حملوں کے ذریعہ اس کے کارکنوں کو نشانہ بنایا ہے۔
انٹرنیشنل کرائسیز گروپ کے ایران پراجیکٹ ڈائریکٹر علی واعظ سمجھتے ہیں کہ ایران فی لحال کارروائی نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا، ایران کی طرف سے جوابی حملے کی کوشش اس بات کو سامنے رکھے گی کہ اسرائیل کے خلاف ایران کا سب سے بڑا اتحادی حزب اللہ اب کافی کمزور ہوگیا ہے اور یہ کہ ایران کے اسرائیل پر دو روایتی حملوں کو روکا جاچکا ہے۔
اسرائیل
اسرائیل بھی اپنے حملے میں محتاط رہا ہے ۔ اسرائیل میں حزب اختلاف کے رہنما یاسر لیپیڈ سمیت اہم اسرائیلی شخصیات کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملے ناکافی رہے ہیں۔
اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق اہلکار یوئیل گزانسکی کہتے ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے محض ملٹڑی تنصیبات پر حملہ ایران کو اسپیس دیتا ہے کہ وہ خجالت سے بچ سکے۔
گوزنسکی کہتے ہیں کہ ایران پر اسرائیلی حملے میں اہداف کا انتخاب اس کی عسکری اہلیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل کے پاس ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اسے ایسا کرنے میں امریکی مدد درکارہوگی۔
دوسری طرف ایران کی طرف سے جوابی حملے کی صورت میں اسرائیل ایران کے اہم اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے، خاص طور پر ان حالات می جبکہ اس کی فضائی دفاعی اہلیت کو تباہ کردیا گیا ہے۔
SEE ALSO: جوہری سمجھوتا اسرائیل کے وجود کے لیے باعثِ خطرہ: نیتن یاہوگوزانسکی کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں تمام ایمرجنسی منصوبوں کو بچا کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یونیورسٹی آف آٹوا میں ایران اور مشرق وسطی کے پروفیسر تھامس جونو نے ایکس پلیٹ فارم پر نوٹ کیا کہ ایرانی میڈیا میں اسرائیلی حملے کو کم کر کے پیش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ تہران تنازع میں مزید اضافے سے گریزاں ہے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ پھر بھی، ایران کو اس وقت ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے ۔
انہوں نے کہا اگر ایران جوابی کارروائی کرتا ہے تو تنازع میں اضافے کا خطرہ ہے اور ایسی صورت میں اس کی کمزوری ظاہر کرتی ہے کہ اسے نقصان ہوگا۔ اور اگر ایران ردعمل ظاہر نہیں کرتا تو یہ اس کی کمزوری کا غماز ہوگا۔
صنم وکیل اس بات سے متقق ہیں کہ ایران کے ردعمل کی شدت بہت کم ہوگی۔
ان کے بقول اسرائیل نے ایک بار پھر یہ دکھایا ہے کہ اس کی عسکری صلاحیت اور اہداف کا نشانہ بنانے کی مہارت ایران سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
لیکن ایک بات تو طے ہے کہ مشرق وسطی کی صورت حال پہلے ایسی نہیں رہی۔
گزشتہ کئی عشروں سے رہنما اور اسٹریٹجک ماہرین اس بارے میں سوچ و بچار کررہے ہیں کہ اسرائیل کسی روز ایران پر کس طرح کھلم کھلا حملہ کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس بات پر بھی غور کرتے آرہے ہیں کہ ایران اپنی اتحآدی پراکسیز کی بجائے خود اسرائیل پر کس قسم کا حملہ کرے گا۔
تاہم، سچ تو یہ ہے کہ دونوں طرف سے اس معاملے پر سوچ واضح نہیں ہے اور شاید وہ اب بھی تشکیل کے عمل میں ہے۔
ان کے مطابق دونوں اطراف نے یہ منصوبہ بندی تو سوچ سمجھ کے کرلی ہے کہ لڑائی کو کس طرح بڑھایا جاسکتا ہے اب وہ ایک ایسی صورت حال میں ہیں جو بلکل نئی ہے جہاں سرخ لکیریں مبہم ہیں اور پرانی لکیریں تبدیل ہو چکی ہیں۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)