ایران نے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ فلمساز کو گرفتار کیا ہے.یہ تیسرا ایرانی ہدایت کار ہے جسے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں حراست میں لیاگیا ہے کیونکہ حکومت نے ملک کی سنیما انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ کیا ہے۔
کئی اخبارات نے منگل کو یہ رپورٹ دی ہے کہ ایوارڈ یافتہ ہدایت کار جعفر پناہی کی گرفتاری اور فلم سازوں پر وسیع دباؤ حالیہ پکڑ دھکڑ کی مہم کا حصہ ہے ۔
عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والی بات چیت میں تعطل اور ملک کے معاشی بحران کے خدشات بڑھنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے متعدد غیر ملکیوں اور ایک ممتاز اصلاح پسند سیاست دان کو حراست میں لے لیا ہے۔
ایران کی حکومت سے اختلاف رکھنے والے مشہور فلم ساز پناہی، پیر کی شام تہران میں پراسیکیوٹر کے دفتر گئے تھے تاکہ گزشتہ ہفتے حراست میں لیے گئے اپنے دو ساتھیوں کے مقدمات کی جانچ پڑتال کریں، جبکہ سیکیورٹی فورسز نے انہیں بھی پکڑ لیا۔ پناہی کے ایک ساتھی نے، جس نے انتقامی کارروائیوں کے خوف کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ حکام نے پناہی کو ایران کی بدنام زمانہ ایون جیل بھیج دیا تاکہ وہ برسوں پہلے کی قید کی سزا پوری کریں۔
2011 میں، پناہی کو حکومت مخالف پروپیگنڈہ کرنے کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی ، 20 سال تک انکے فلم بنانے پر پابندی عائد کر دی گئی اور انہیں ملک چھوڑنے سے بھی روک دیا گیاتھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم، سزا کو کبھی بھی حقیقت میں نافذ نہیں کیا گیا اور پناہی نے حکومت سے اسکرپٹ کی منظوری یا اجازت کے بغیر، زیر زمین فلمیں بنانا جاری رکھا، جو بیرون ملک ریلیز ہوئیں اور بڑی مشہور ہوئیں۔
پناہی نے متعدد فلمی میلوں میں ایوارڈز جیتے ہیں، جن میں 2015 میں فلم" ٹیکسی" کو برلن گولڈن بیئر اور "دی سرکل" کو2000 میں وینس گولڈن لائین، ایوارڈ شامل ہیں ۔
برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول نے کہا کہ وہ پناہی کی گرفتاری کے بارے میں سن کر "مایوس اور ناراض ہیں ، اور اسے "آزادی اظہار اور فنون کی آزادی کی ایک اور خلاف ورزی" قرار یتے ہیں۔
پناہی کی حراست سے پہلے دو دیگر ایرانی فلم سازوں محمد رسولوف اور مصطفیٰ الاحمد کو گرفتاری کیا گیا تھ۔ا
حکام نے رسولوف اور الاحمد پر ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے ملک کے جنوب مغرب میں بدامنی کے دوران ، حکومت کے پرتشدد کریک ڈاؤن کی سوشل میڈیا پر مخالفت کا اظہار کیا تھا۔
رسولوف نے 2020 میں اپنی فلم "THERE IS NO EVIL" کے لیے برلن فلم فیسٹیول کا سب سے بڑا انعام جیتا جو ایران میں سزائے موت اور ذاتی آزادیوں پر حکومتی جبر کے خلاف تھی ۔دوہزار گیارہ میں، رسولوف کی فلم "الوداع" نے کانز میں انعام جیتا لیکن اسے قبول کرنے کے لیے فرانس جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کانز نے تینوں فلم سازوں کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کی ۔
امریکہ کی ایک ادبی اور آزاد ی ء تقریر کی تنظیم PENنے کہا کہ ان کی نظربندی ، آزادی اظہار اور تقریر کے انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں کئی غیر ملکی بھی ایرانی جیل میں ڈالے گئے ہیں، جن میں دو فرانسیسی شہری، ایک سویڈش سیاح، ایک پولش سائنسدان اور دیگر شامل ہیں۔ یہ گرفتاریاں ان خدشات کو جنم دیتی ہیں کہ ایران انہیں مذاکرات میں سودے بازی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ ایک ایسا حربہ ہے جو ایران نے ماضی میں استعمال کیا ہے، 2014 میں ایرانی حکام نے واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر جیسن رضایان کو گرفتار کیا تھا۔ اسے ڈیڑھ سال بعد امریکہ کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدہ کے نفا ذ پر قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا گیا ۔
پیر کے روز، ایران میں زیر حراست بیلجیئم کے انسانی ہمدردی کے کارکن، اولیور وینڈیکاسٹیل کے خاندان نے برسلز سے اپیل کی کہ وہ ایون جیل سے ان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے " کچھ" کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے فروری کے آخر میں ایران میں افغان مہاجر کمیونٹی کی مدد کے لیے چھ سال سے زیادہ کام کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
بیلجیئم کی وزارت خارجہ نے منگل کو اے پی کو بتایا کہ اس نےکئی مواقع پر ایران سے ان کی رہائی کے لیے کہا ہےلیکن ابھی تک ان کی گرفتاری کی وجوہات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ انہوں نے بتا یا کہ بیلجئیم حکومت انہیں قونصلر مدد فراہم کر رہی ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)