ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ یمن کے تنازع کے سیاسی حل کے لیے اسلام آباد اور تہران کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اُن کے بقول یمن میں فوری جنگ بندی ہونی چاہیے۔
جواد ظریف بدھ کی شام اسلام آباد پہنچے تھے جہاں اُنھوں نے وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد سرتاج عزیز کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس میں جواد ظریف نے کہا کہ ایران چاہتا ہے کہ یمن میں جنگ بند کی جائے اور وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایران یمن کے فریقوں کے درمیان مذاکرات اور فریقین کی شمولیت سے متفقہ حکومت کا قیام چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام خود یمن کو کرنا چاہیے لیکن دیگر ممالک بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
پریس کانفرنس میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یمن کی صورت حال پر تشویش ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایرانی وزیرِ خارجہ کے ساتھ ملاقات میں دونوں ملکوں نے اتفاق کیا ہے کہ یمن تنازع کے تمام فریق خونریزی کے خاتمے کے لیے لچک کا مظاہرہ کریں اور تنازع کے حل کے لیے سنجیدہ مذاکرات کی راہ ہموار کریں۔
جواد ظریف جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کریں گے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کا دورۂ پاکستان وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے یمن کے تنازع کے حل کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے ترکی کا دورہ کیا تھا جس کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوان نے منگل کو تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔
ایرانی وزیرخارجہ یہ دورہ ایسے وقت کر رہے ہیں جب پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جاری ہے جس میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد میں پاکستان کے شامل ہونے یا نہ ہونے پر بحث کی جارہی ہے۔
پارلیمان کا مشترکہ اجلاس پیر کو شروع ہوا تھا اور گزشتہ تین روز کے دوران ہونے والی تقاریر میں بیشتر ارکان نے موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان کو اس جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
بدھ کو اجلاس کے تیسرے روز ایوان میں خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کی خاتون رکن قومی اسمبلی شرھیں مزاری نے کہا کہ پاکستان کی افواج کو کسی اور ملک میں لڑائی کے لیے نہیں بھیجنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کی یقینی بنانا ہوگا کہ اس جنگ کے اثرات پاکستان پر نہ پڑیں اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اس جنگ کا حصہ بننے سے احتراز برتیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان کو اس تنازع کے حل کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بحث کے آغاز پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان سے اس جنگ کے لیے زمینی، بحری اور فضائی مدد کے حصول کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف سمیت حکومت کے کئی وزرا بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اُس کا دفاع کرے گا۔ لیکن حکومت کا موقف ہے کہ پاکستانی فوج کے یمن کی جنگ میں حصہ لینے کے بارے میں کوئی فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا ہے۔