رسائی کے لنکس

یمن کا بحران، ایرانی وزیرخارجہ کا دورہ اسلام آباد


پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے یمن کے تنازع کے حل کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف بدھ کو پاکستان کے سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچے ہیں۔

جواد ظریف وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے اس صورت حال پر تفصیلی مذاکرات ہو رہے ہیں، جس کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس متوقع ہے۔

اُن کے اس دورے کا مقصد سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری فضائی کارروائیوں کے بعد کی صورت حال پر پاکستانی عہدیداروں سے تبادلہ خیال کرنا ہے۔

پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے یمن کے تنازع کے حل کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے ترکی کا دورہ کیا تھا جس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے منگل کو تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔

ایرانی وزیرخارجہ یہ دورہ ایسے وقت کر رہے ہیں جب پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بھی جاری ہے جس میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد میں پاکستان کی طرف شمولیت کرنے یا نا کرنے پر بحث جاری رہے۔

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس پیر کو شروع ہوا تھا اور گزشتہ تین روز کے دوران ہونے والی تقاریر میں تمام ہی اراکین نے کہا کہ پاکستان کو اس جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیئے۔

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن قومی اسمبلی شریں مزاری نے کہا کہ پاکستان کی افواج کو کسی اور ملک میں لڑائی کے لیے نہیں بھیجنا چاہیئے۔

’’ہمیں اس بات کی یقینی بنانا ہوگا کہ اس جنگ کے اثرات پاکستان پر نا پڑیں اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اس جنگ کا حصہ نا بنیں۔‘‘

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان کو اس تنازع کے حل کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بحث کے آغاز پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان سے اس جنگ کے لیے زمینی، بحری اور فضائی مدد کے حصول کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

وزیراعظم نوازشریف سمیت اُن کی حکومت میں شامل دیگر اعلیٰ عہدیدار بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اُس کا دفاع کرے گا۔ لیکن پاکستانی فوجیں اس جنگ میں بھیجنے کے حوالے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG