ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں ناگزیرحیثیت رکھتا ہے اور اگر امریکہ کو دوست ملک کی حیثیت سے اس منصوبے پر تحفظات ہیں تو اسے چاہیئے کہ پہلے وہ بھارت کے ساتھ اپنے معاہدے کی طرز پر پاکستان کو بھی نیوکلئیرانرجی کی ٹیکنالوجی فراہم کرے۔ان خیالات کا اظہار پاکستان کے ماہرین نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
پروگرام’ اِن دا نیوز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیرڈاکٹرمرزا اختیار بیگ نے اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر کیمروں منٹر کے ذرائع ابلاغ میں اس بیان پر کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا آئیڈیا زیادہ اچھا نہیں ہے، اپنے ردِعمل میں کہا کہ امریکہ پاکستان کا دوست ملک ہے اور سفیر کا بیان ڈکٹیشن نہیں ایک دوست ملک کی حیثیت سے دی گئی تجویز ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ یہ گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے لیے بے احد اہم ہے۔ حتٰی کہ ترکمانستان سے بھی گیس پائپ لائن اس کا متبادل نہیں بلکہ ایک متوازی ذریعہ ہے۔
انہوں نے وفاقی وزیرپٹرولیم ڈاکٹرعاصم کے حوالے سے بتایا کہ وہ بھی ایران گیس پائپ لائن کے حق میں ہیں اور حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے ایک فنانشل ایڈوائزر بھی مقرر کر دیا ہے۔ ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ منصوبہ ایران پرعالمی پابندیوں کے دائرہ کار میں نہیں آتا، کیونکہ پاکستان نے بہت پہلے اس منصوبے پر دستخط کر رکھے ہیں۔
سابق سیکریٹری پٹرولیم اور توانائی کے امور کے ماہر ڈاکٹر گلفرازاحمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ،’ یہ بات باعث تعجب ہے کہ امریکہ کے سفیر پاکستان میں ہوتے ہوئے ، انرجی کے بحران کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی پاکستان ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کی حمایت نہیں کرتے‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا کہ مسٹر منٹر اس موقع پر پاکستان کو متبادل بھی تجویزکرتے جس سے پاکستان توانائی کے بحران پر قابو پاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس معاہدے پر امریکہ کے تحفظات ہیں تو اسے چاہیئے کہ پاکستان کو بھی بھارت کی طرز پر نیوکلیرپاورانرجی کی ٹیکنالوجی فراہم کرے۔
سابق سیکریٹری پٹرولیم کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن عالمی پابندیوں کے دائرے میں نہیں آتی۔ اُن کے بقول، یہ ایران کے اندرسرمایہ کاری نہیں۔
ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے سبب امریکہ ایرانی کمپنیوں خاص طور پر انرجی سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ لین دین کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے بھی ایران کو سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔