ان دنوں تہران کی سڑکوں پر متعدد خواتین ،بغیر اسکارف کے نظر آ رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکمران علما اور سخت گیر موقف رکھنے والے افراد کی برہمی میں اضافہ ہو رہا ہے اور حکام ان کمپنیوں پر چھاپے مار رہے ہیں جنہیں بغیر اسکارف کے خواتین چلا رہی ہیں یا جہاں ملازمین اور گاہک خواتین بغیر اسکارف کے دیکھی گئی ہوں ۔دوسری طرف ایران کی پارلیمنٹ ایک ایسے قانون پر بحث کر رہی ہے جو بے پردہ یا حجاب کے بغیر خواتین اور ان کے کاروبار کے لیے سزاؤں میں اضافہ کرے گا۔
برطانیہ میں مقیم ایرانی نژاد شہری مریم نمازی کہتی ہیں ،"ہم جانتے ہیں کہ حکام کی جانب سے یہ کوششیں خاص طور ابھی کیوں کی جا رہی ہیں اور مزید دباؤ کیوں ڈالنا شروع کر دیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ 16 ستمبر کو مہسا امینی کے چند بال نظر آنے پر ان کے قتل کے بعد ہم نے ایران میں خواتین کا ایک طرح کا انقلاب دیکھا ہے اور وہاں سڑکوں پر چلنے والی بہت سی خواتین اسکارف کے بغیر نظر آئیں اور پردے کے لازمی اصولوں کی خلاف ورزی بھی دیکھی گئی ۔"
یہ کوشش ان ملک گیر مظاہروں کی پہلی برسی سے پہلے ہو رہی ہے جو گزشتہ سال 16 ستمبر کو اکیس سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہوئےتھے۔ جس کے بعد سیکورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 530 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 22,000 سے زیادہ گرفتار ہوئے۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے خواتین کے حجاب نہ پہننے کے رجحان کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے اور سر نہ ڈھانپنے والی خواتین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ "غیر ملکیوں کی تربیت یافتہ" ہیں اورایسا کر کے "کچھ خاص مقاصد" حاصل کر رہی ہیں۔
خواتین کے سر ڈھانپنے کو ایران کے سخت گیر نظام میں تقویٰ اور حیا کے اظہار کے ساتھ سختی سے مشروط کیا جاتا ہے ۔ اسکارف یا سیاہ چادر، طویل عرصے سے ایران میں ایک سیاسی علامت بھی رہی ہے، خاص طور پر 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں اسے پہننا خواتین پر لازم قرار دیا گیا ۔
اگرچہ مہسا امینی کی موت کے بعد، پولیس اسلامی ڈریس کوڈ کو سختی سے نافذ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی جس کی وجہ ممکنہ طور پر وسیع تر مظاہروں سے بچنا تھا۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں صورتحال میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ حکام نے گاڑیوں میں نقاب کے بغیر نظر آنے والی خواتین کو انتباہی ٹیکسٹ بھیجنا شروع کر دیے ہیں۔اس دوران تقریباً دس لاکھ خواتین کو انتباہی پیغامات بھیجے گئے۔ اس کے علاوہ تقریباً 2,000 کاریں ضبط کی گئیں اور 4,000 سے زیادہ خواتین کو قانونی جواب دہی کا پابند کیا گیا۔
اس کریک ڈاؤن کا دائرہ دارالحکومت تہران سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔ شمالی شہر لاہیجان کے محکمہ صحت کے مقامی حکام نے ہسپتالوں اور کلینکس کو حکم دیا ہے کہ وہ بے پردہ خواتین کا علاج نہ کریں۔
تہران سے تقریباً 60 کلومیٹر مشرق میں واقع قصبے دماوند میں حکام نے ایک بینک منیجر اور ایک درزی کو حجاب نہ پہننے والی خواتین کو سروسز فراہم کرنے پر گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد، سیکورٹی فورسز، سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے ایسی کمپنیوں کی نگرانی کر رہی ہیں جو اپنے کام کے لیے ایسی تصاویر استعمال کرتی ہیں جن میں خواتین نے حجاب نہیں پہن رکھا۔
ڈیجیکالا، ایران میں ایک انتہائی مقبول ڈیجیٹل ریٹیل ویب سائٹ ہے جس کے ماہانہ 40 ملین سے زیادہ فعال صارفین ہیں،حال ہی میں اس کے ایک دفتر کو بند کر دیا گیا ہے ۔ آن لائن کتابوں کی دکان Taghchehاور انشورنس مارکیٹ پلیس ازکی کو بھی مختصر طور پر بند کر دیا گیا ہے ۔
اب شمال مشرقی شہر مشہد میں خواتین پر آوٹ ڈور ریستورانوں میں بیٹھنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اصفہان میں سخت موقف رکھنے والے لوگ دکانوں میں مردوں اور عورتوں کے ایک ساتھ کام کرنے پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔
انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ پولیس نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایسی تمام پروڈکشنز کو بند کر دے گی جس میں خواتین کیمروں کے پیچھے حجاب کے بغیر کام کر رہی ہیں۔
SEE ALSO: ایران میں حجاب نہ کرنے پر دو اداکاراؤں پر فردِ جرم عائدججوں نے نقاب نہ پہننے والی مشہور شخصیات کو جیل کے وقت کے بدلے مردہ خانوں میں عوامی خدمت کے طور پر کام کرنے کی سزا سنائی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ اپنی باقاعدہ ملازمت پر واپس جانے سے پہلے انہیں ماہر نفسیات سے دماغی صحت کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا ہوگا۔
مریم نمازی کہتی ہیں ،"پردہ کرنے یا نہ کرنے کی لڑائی، اسکارف یا حجاب نہ پہننے سے آگے کی بات ہے ،یہ مذہبی اصولوں اور اقدار کے خاتمے کی لڑائی ہے جوملک کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی کو اس کے بنیادی انسانی حق سے محروم کرتی ہے ، یہ امتیازی سلوک کی لڑائی ہے، یہ انصاف کے حصول کی لڑائی ہے ۔"
ایران کی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جانے والا نیا بل خواتین کے لیے سزاؤں کو مزید سنگین بنا سکتا ہے۔ اس میں 360 ملین ایرانی ریال تک کے جرمانے اور اسکارف کے بغیر خواتین کے لیے قید کی سزا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مسودہ قانون میں اسکولوں، پارکوں، ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر مردوں اور خواتین کے لیے الگ الگ سہولتیں بنانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس میں ایسے کاروباروں کو ان کی تین ماہ کی آمدنی ادا کرنے کا کہا گیا ہے جہاں ملازم خواتین نے اسکارف نہ پہن رکھا ہو یا جہاں خواتین گاہک بغیر اسکارف پہنے آتی ہوں ، جبکہ بغیر اسکارف پہنے اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی مشہور شخصیات پر ملک چھوڑنے اور پرفارم کرنے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
یہ بل انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ایران کے نیم فوجی انقلابی گارڈ کی تمام رضاکار فورسز "بسیج" کو بھی بااختیار بنائے گا، جس نے ماضی میں ملک گیر احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبایا ہے ۔
سخت گیر موقف رکھنے والے لوگ طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بسیج فورسزحجاب کی اس لڑائی میں حصہ لیں۔
لیکن اس مجوزہ بل پر تنقیدبھی سامنے آ رہی ہے ۔ ایک سخت گیر سابق گارڈ کمانڈر اور موجودہ وزیر برائے ثقافتی ورثہ، عزت اللہ زرغامی نے مردہ خانے کے لازمی کام جیسی سخت سزاؤں کے خلاف خبردار کیا ہے۔
SEE ALSO: ایران کی ای کامرس کمپنی کو خواتین ملازمین کے سر نہ ڈھانپنے پر پابندی کا سامناایران کی سپریم کورٹ نےبغیر اسکارف پہنے ایک خاتون کی گاڑی کو ایک سال کے لیے ضبط کرنے کے عدالتی حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت ایک نئی بدامنی کو جنم دے سکتی ہے کیونکہ ایران میں آئندہ برس پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور ملک کی معیشت پہلے ہی اس کے جوہری پروگرام پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
دریں اثنا، ایران میں اصلاح پسندوں کے نام سے جانے جانے والے سیاست دان حجاب کے تنازعے پر کھل کر بات کر رہے ہیں کیونکہ وہ نظام کے اندر رہ کر ایران کے سخت گیر مذہبی نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے اصلاح پسندوں میں سے ایک سابق صدر محمد خاتمی سوال کرتے ہیں کہ کیا حجاب کا نفاذ "عاقلانہ اور فائدہ مند" تھا۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اصلاح پسندوں کی مقبولیت میں ایران اور دنیا کے چھ طاقتور ملکوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد کمی آئی ہے۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)