ایران نے مارچ میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے امیدواروں کی رجسٹریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ ایران میں گزشتہ سال بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے، جب ملک میں انتخابی عمل شروع ہو رہا ہے۔
ایران میں گزشتہ سال ایک خاتون مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد کئی مہینوں تک ملک گیر مظاہرے ہوئے تھے ۔ بائیس سالہ مہسا امینی کو ایران میں اخلاقیات نافذ کرنے والی پولیس نے ملک میں رائج لباس کے کڑے ضابطوں کی خلاف ورزی کے الزام پر حراست میں لیا تھا۔ یہ مظاہرے حکمران علماء کی معزولی کے مطالبات کی شکل اختیار کر گئے تھے اور انہیں ایران میں چار دہائیوں سے رائج نظام حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج سمجھا جا رہا تھا۔
ان احتجاجی مظاہروں میں پانچ سو سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے جب کہ تقریباً 20 ہزار افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ حکام کی جانب سے شدید کارروائی کے بعد مظاہرے ختم ہو گئے تھے۔
جس کے بعد گزشتہ ماہ پولیس ایک بار پھر منظر عام پر آئی اور اس نے خواتین کو سر پر سکارف پہنوانے کی نئی مہم کا آغاز کیا۔
ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد سے باقاعدہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ لیکن علما پر مبنی ایک ادارہ ممکنہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور کسی بھی ایسے شخص کو نا اہل قرار دیا جاتا ہےجس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ وفادار نہیں ہے ۔ تمام اہم معاملات پر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی رائے حتمی سمجھی جاتی ہیں ۔
ایران میں پارلیمنٹ کی 290 نشستوں کے لئے امیدواروں کی آن لائن رجسٹریشن کا عمل ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے۔ یہ طویل انتخابی عمل کا نکتہ آغاز ہے۔ ہر امیدوار کو بارہ ارکان پر مشتمل علما کے ادارے گارڈین کونسل سے منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے ۔ علما کونسل کے بارہ ارکان میں سے نصف کی تعیناتی براہ راست رہبر اعلیٰ کرتے ہیں ۔
ایران میں 2020 کے انتخابات سے قبل سات ہزار سے زیادہ امیدواروں کو نااہل قرار دیا گیا تھا ۔ یہ تعداد انتخاب میں حصہ لینے کے خواہاں افراد کا تقریباً نصف تھی ۔1979 کے بعد اس الیکشن میں ٹرن آؤٹ سب سے کم رہا اور صرف 42 فیصد اہل ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ طے پانے والے ایک عالمی نوعیت کے جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کرنے کے بعد سے ایران زبردست مالی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے خلاف امریکی پابندیاں بحال ہو گئی تھیں، جن سے ایران کی کرنسی کی قدر گر گئی ۔ متعدد ایرانی اپنی زندگی بھر کی بچت ختم کر بیٹھےہیں جب کہ قیمتوں میں اضافہ جاری ہے ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لوگوں کے پاس احتجاج یا سیاست کا وقت نہیں، کیونکہ وہ بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے ہیں۔
ایران کی حکومت امریکہ کے 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے سے پہلے کے اس معاہدے کی پاسداری کرتی رہی ہے۔ تاہم اب وہ اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہی ہے۔
ایران اب کھلے عام یورینیم کی افزودگی کر رہا ہے اور اپنے مقرر ذخیرے کی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ ایران اب زیر زمین ایک نئی جوہری تنصیب تعمیر کر رہا ہے جو ممکنہ طور پر امریکی ہتھیاروں کے لیے نا قابل تسخیر ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)
فورم