ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات بدھ کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری ہیں۔
واشنگٹن —
ایرانی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکارنے عندیہ دیا ہے کہ ایران جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے معائنہ کاروں کوزیادہ اختیارات کے ساتھ اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے سکتا ہے۔
ایران کے نائب وزیرِ خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات بدھ کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری ہیں۔
مذاکرات میں شریک 'پی 5+1' گروپ کے نمائندوں نے ایران سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو اپنی جوہری تنصیبات کے اچا نک اور تفصیلی معائنوں کا اختیار دینے اور یورینیم کی افزودگی کی سطح کم کرنے کے مطالبات کیے ہیں۔
خیال رہے کہ 'پی5+1' اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین - اور جرمنی پر مشتمل ہے۔
جنیوا میں جاری مذاکرات کے پہلے روز منگل کو ایرانی وفد نے اپنے ملک کے جوہری پروگرام سے متعلق مغربی ممالک کے خدشات کے ازالے کے لیے بعض تجاویز پیش کی تھیں جن کی تفصیلات تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔
لیکن ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اِرنا' نے بدھ کو نائب وزیرِ خارجہ عباس ارقچی کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے پیش کی جانے والی ابتدائی تجاویز میں جوہری تنصیبات کے عالمی معائنے اور یورینیم کی نسبتاًکم سطح پر افزودگی سے متعلق کوئی تجویز شامل نہیں۔
ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف کے بقول ایران کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے کے تین مرحلے ہیں جس پر عمل درآمد کی صورت میں طویل عرصے سے جاری جوہری بحران، ان کے بقول، صرف ایک سال میں حل ہوسکتا ہے۔
فریقین نے مذاکرات کے پہلے روز منگل کو ہونے والی بات چیت کو سراہا تھا جس کے دوران میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مغربی ممالک کے خدشات دور کرنے کے لیے اپنی حکومت کی جانب سے منصوبہ پیش کیا تھا۔
ایران چاہتا ہے کہ اس کی جانب سے کیے جانے والے اعتماد سازی کے اقدامات کے جواب میں عالمی طاقتیں اس پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں نرم کریں جن کا مقصد تہران کو یورینیم افزودہ کرنے سے روکنا ہے۔
ایران میں نئی حکومت بننے کے بعد اس کے جوہری پروگرام پر ہونے والے یہ پہلے مذاکرات ہیں جن سے عالمی برادری نے طویل عرصے سے جاری اس تنازع کے حل کی خاصی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال جون میں منتخب ہونے والے ایران کے نئے صدر حسن روحانی کو اپنے پیش رو محمود احمدی نژاد کے مقابلے میں زیادہ روشن خیال اور "مغرب دوست" قرار دیا جارہا ہے۔
ایران کے نائب وزیرِ خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات بدھ کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری ہیں۔
مذاکرات میں شریک 'پی 5+1' گروپ کے نمائندوں نے ایران سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو اپنی جوہری تنصیبات کے اچا نک اور تفصیلی معائنوں کا اختیار دینے اور یورینیم کی افزودگی کی سطح کم کرنے کے مطالبات کیے ہیں۔
خیال رہے کہ 'پی5+1' اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین - اور جرمنی پر مشتمل ہے۔
جنیوا میں جاری مذاکرات کے پہلے روز منگل کو ایرانی وفد نے اپنے ملک کے جوہری پروگرام سے متعلق مغربی ممالک کے خدشات کے ازالے کے لیے بعض تجاویز پیش کی تھیں جن کی تفصیلات تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔
لیکن ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اِرنا' نے بدھ کو نائب وزیرِ خارجہ عباس ارقچی کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے پیش کی جانے والی ابتدائی تجاویز میں جوہری تنصیبات کے عالمی معائنے اور یورینیم کی نسبتاًکم سطح پر افزودگی سے متعلق کوئی تجویز شامل نہیں۔
ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف کے بقول ایران کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے کے تین مرحلے ہیں جس پر عمل درآمد کی صورت میں طویل عرصے سے جاری جوہری بحران، ان کے بقول، صرف ایک سال میں حل ہوسکتا ہے۔
فریقین نے مذاکرات کے پہلے روز منگل کو ہونے والی بات چیت کو سراہا تھا جس کے دوران میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مغربی ممالک کے خدشات دور کرنے کے لیے اپنی حکومت کی جانب سے منصوبہ پیش کیا تھا۔
ایران چاہتا ہے کہ اس کی جانب سے کیے جانے والے اعتماد سازی کے اقدامات کے جواب میں عالمی طاقتیں اس پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں نرم کریں جن کا مقصد تہران کو یورینیم افزودہ کرنے سے روکنا ہے۔
ایران میں نئی حکومت بننے کے بعد اس کے جوہری پروگرام پر ہونے والے یہ پہلے مذاکرات ہیں جن سے عالمی برادری نے طویل عرصے سے جاری اس تنازع کے حل کی خاصی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال جون میں منتخب ہونے والے ایران کے نئے صدر حسن روحانی کو اپنے پیش رو محمود احمدی نژاد کے مقابلے میں زیادہ روشن خیال اور "مغرب دوست" قرار دیا جارہا ہے۔