Zeev Raz کو فخر ہے کہ انھوں نے F-16 بمباروں کے ایک اسکواڈرن کی قیادت کرتے ہوئے بغداد کے نزدیک نیوکلیئر تنصیبات کو تباہ کیا تھا ۔ اسرائیلی ایئر فور س کے اس ریٹائرڈ پائلٹ کو یاد ہے کہ یہ کام کتنا آسان تھا کیوں کہ عراقیوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں’’ری ایکٹر کے قریب پہنچ کر جب ہم نے اپنے ریڈار کے اسکرین پر نظر ڈالی تو ہمیں بغداد کے اوپر یا ری ایکٹر پر کوئی عراقی جہاز نظر نہیں آیا۔ ہم سب یہ سمجھے کہ شاید ہمارا ریڈار کام نہیں کر رہا ہے ۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ کام اتنا آسان ہو گا۔‘‘
جون 1981 میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت کے مشن میں اسرائیل نے صدام حسین کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کر دیا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ عراق اس پروگرام کے ذریعے یہودی مملکت پر حملہ کر سکتا تھا۔ اب جب کہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اسرائیل کو تباہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اور ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کو ترقی دے رہا ہے یہودی مملکت کا خیال ہے کہ اس کا وجود ایک بار پھر خطرے میں پڑ گیا ہے ۔
Yaakov Amidror ریٹائرڈ جنرل اور اسرائیلی فوج کی انٹیلی جینس ڈویژن کے سابق سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل مسٹر احمدی نژاد کو نظر انداز نہیں کر سکتا،جب ان کے نظریے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں یہودی مملکت کے طور پر اسرائیل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے تو ہمیں احمدی نژاد کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیئے ۔
اسرائیل کے وزیر دفاع Ehud Barak نے بار بار کہا ہے کہ ہمیں ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر ہوائی حملوں سمیت کسی بھی طریقے کو مسترد نہیں کرنا چاہیئے ۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل نے بہت دیر کر دی ہو اور ایران کو اپنے پروگرام کو ترقی دینے کی مہلت مل گئی ہو۔ اسرائیل کے بعض ذرائع کے مطابق تہران ایک سال کے اندر معمولی سا نیوکلیئر بم تیار کر سکتا ہے۔
سابق اسرائیلی پائلٹ، Zeev Raz کہتے ہیں کہ کئی چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے 29 سال پہلے کے عراق کے مقابلے میں ایران پر حملہ کرنے میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے’’ایران کا یہ پراجیکٹ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ایران ، عراق کے مقابلے میں کہیں بڑا ملک ہے۔ بہت سی تنصیبات جنہیں نشانہ بنانا پڑے گا وہ زیر زمین بہت گہرائی میں ہیں بلکہ پہاڑوں کے نیچے ہیں۔ ‘‘
ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا ہوائی حملے کے نتیجے میں ایران، نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک ہو جائے گا۔ ریٹائرڈ جنرل Amidror کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اس سوال کا جواب آسان ہے۔ ’’اس سوال کا صاف جواب ہے، نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایران جتنا بڑا مسئلہ بن گیا ہے اس سے نمٹنا اسرائیل کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام ایران کے اندر داخلی طور پر ہونا چاہیئے ۔ ایرانیوں کو خود یہ طے کرنا ہے کہ وہ کس قسم کی حکومت چاہتے ہیں۔‘‘
اسرائیلی عہدے داروں کو امید ہے کہ نئی بین الاقوامی پابندیوں کے نتیجے میں، ایران کے اندر تبدیلی آئے گی اور اسرائیلی لیڈر زور شور سے ان کے لیے لابی انگ کر رہے ہیں۔ گذشتہ مہینے جرمنی کے دورے میں اسرائیلی صدر Shimon Perez نے جرمن پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ان لاکھوں ایرانیوں کے ساتھ ہے جو آمریت اور تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی انتہا پسند حکومت ہے جس سے دنیا کو نیوکلیئر تباہی کے خطرے کا سامنا ہے۔
سابق پائلٹ Zeev Raz کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اور زیادہ سخت پابندیوں کے لیے دباو ڈالتے رہنا چاہیئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ 1981 میں ہمیں عراق میں جو کامیابی حاصل ہوئی تھی ایران میں اس قسم کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ان کا کہنا ہے’’ہم نے عراقیوں کو اچانک بے خبری میں جا لیا تھا۔ ہم نے اچھی منصوبہ بندی کی تھی اور اس پر بالکل صحیح طریقے سے عمل درآمد کیا۔ ہمارے مقدر نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ اگر ہم ایران پر حملہ کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس بار مقدر ہمارا ساتھ نہ دے۔‘‘
اسرائیلیوں کو امید ہے کہ حکومت کی تبدیلی یا اس کے خطرے کی وجہ سے ایران اپنے نیوکلیئر عزائم سے باز آ جائے گا۔ اس وقت تک ہوائی حملے سمیت ہر قسم کی کارروائی کا امکان باقی رہے گا۔