منگل کو ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف ایک میچ میں 6-2 سے شکست کے ساتھ ایرانی ٹیم کو میدان کے اندر اور باہراحتجاج کا سامنا تھا، تاہم ان کے ملک کے میڈیا نے اس شکست کے لیے حکومت مخالف مظاہرین کو مورد الزام ٹھیرایا ہے۔
سخت گیر ایرانی میڈیا کا یہی کہنا ہے، جس نے اس شکست کا الزام اس بدامنی پر ڈالنے کی کوشش کی جس نے 16 ستمبر کے بعد سے اسلامی جمہوریہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایرانی اخبارات نے قومی فٹ بال ٹیم کی ناکامی کا الزام امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل سمیت غیر ملکی دشمنوں پر الزام لگانے کے جانے پہچانے ہتھکنڈے کا استعمال کر کے مظاہروں کو بھڑکا دیا۔
ایران - 2 ؛ انگلینڈ اسرائیل سعودی اور غدار – 6
یہ تھی وہ سرخی جو سخت گیر روزنامہ کیہان اخبار کے جمائی، جس کے ایڈیٹر انچیف کا تقررایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کیا ہے۔
اخبار نے کہا کہ ایران کو شکست "ٹیم کے خلاف ... ملکی اور غیر ملکی غداروں سے ہفتوں کی غیر منصفانہ اور بے مثال نفسیاتی جنگ کے بعد ہوئی ہے ۔" اس نے مزید کہا۔ ایک "سیاسی میڈیا کرنٹ" نے "ایران کی ٹیم پر حملہ کرکے اس کی روح کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔"
پیر کے روز اسٹیڈیم میں موجود ایرانی شائقین نے امینی کے نام کے نعرہ لگائے، انہوں نےکتبے اٹھائے ہوئے تھے اوراحتجاجی نعروں والی ٹی شرٹس پہنی تھیں اور قومی ترانے کے دوران نعرے لگائے تھے۔
بہت سے شائقین میں اس بات پر عدم اتفاق نظر آیا کہ آیا مظاہروں پر سیکیورٹی فورسز کے پرتشدد کریک ڈاؤن کے پس منظر میں انہیں اپنی قومی ٹیم کی حمایت بھی کرنی ہے یا نہیں ۔
ایران میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے مطابق، مظاہروں کے شروع ہونے کے بعد سے کم از کم 419 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ قطر میں جیسے ہی کھیل کا آغاز ہوا، ایرانی سیکیورٹی فورسز نے ملک کے مغرب میں ایک کرد قصبے میں مظاہرین کے خلاف شدید گولہ باری کی۔
ایک اور سخت گیر روزنامے،’ وطن امروز‘ نے رپورٹ کیا کہ ایران میں مظاہرین نے سڑکوں پر اپنے ملک کی شکست کا جشن منایا، کافی شاپس میں اس وقت خوشی کا اظہار کیا جب انگلینڈ نے گول کیے۔ اور کھیل کے بعد خوشی سے گاڑیوں کے ہارن بجائے۔
SEE ALSO: فیفا ورلڈ کپ: ایرانی ٹیم میچ سے قبل اپنے قومی ترانے کے وقت خاموش کھڑی رہیآن لائن مرکزی تہران کی فوٹیج میں موٹر سائیکل ڈرائیوروں کو ہارن بجاتے اور ایران کے خلاف انگلینڈ کے چھ گول کے حوالے سے "چھ" کے نعرے لگاتے دکھایا گیا ہے۔ ۔ حکام نے شمال مشرقی شہر مشہد میں ایک کافی شاپ کو یہ اعلان کرنے پر بند کر دیا کہ وہ انگلینڈ کی ٹیم کا ساتھ دے رہی ہے۔
بی بی سی کی فارسی سروس کے سینئر رپورٹر نے اپنی ایک ٹویٹ میں تہران سے ایک ویڈیو شئیر کی ہے، جس مٰیں انہوں نے بتایا ہے کہ دو ایرانی برطانیہ کا پرچم لہرا کر ایران کی شکست پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایران کے اصلاح پسند روزنامہ شارق نے لکھا۔ "کوئی بھی کھلاڑی جذبے کے ساتھ تیار نہیں تھا"۔
ایران کی قومی ٹیم پر مظاہرین کی جانب سے فٹ بال کی عالمی چیمپیئن شپ کی دوڑ میں حمایت ظاہر کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے۔ کھلاڑیوں کو گزشتہ ہفتے رخصت ہونے کی تقریب میں صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کے بعد عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جہاں وہ احتجاج کے معاملے پر خاموش رہے۔ چند کھلاڑیوں نے رئیسی کے احترام میں جھکتے ہوئے تصویر کھنچوائی۔
"تو آپ صدر کے پاس گئے، یہ کم ازکم ان سے بچوں اور نوعمروں کو قتل نہ کرنے کی بات کہنے کا بہترین موقع تھا!" ممتاز ایرانی اداکار پرویز پارستوئی نے انسٹاگرام پر لکھا۔
انگلینڈ کے خلاف میچ سے پہلے، ایرانی کھلاڑیوں نے یکجہتی کے اظہار میں خاموشی سے کھڑے ہوکر اپنا ترانہ نہیں گایا۔ میچ کے دوران انہوں نے اپنی ٹیم کے دو گول کرنے پر جشن نہیں منایا۔
SEE ALSO: قطر ورلڈ کپ: ایرانی کپتان کا میچ سے پہلے ایرانی مظاہرین کی حمایت کا اظہارکھلاڑی احتجاج کی چھوٹی سے چھوٹی علامت کا اظہار کرنے پر بھی شدید ردعمل کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ تہران کی سرکاری ارنا نیوز ایجنسی نے ہنگامہ آرائی کے درمیان ٹیم کو حب الوطنی کی علامت اور قومی یکجہتی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئےکھلاڑیوں کو "اپنے ملک کی ترقی کے لیے لڑنے والے سپاہیوں" سے تعبیر کیا ہے۔
کچھ سابق فٹ بال اسٹارز جنہوں نے احتجاجی تحریک میں حصہ لیا ہے انہیں گرفتاری یا ان کی غیر حاضری میں فرد جرم کا سامنا ہے۔
(یہ رپورٹ ایسوسی ایٹڈ پریس کی معلومات پر مبنی ہے)