ایران کا جوہری پروگرام گزشتہ ایک عشرے سے خبروں کی وجہ بنتا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں امریکہ اور ایران کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے کی بحالی کے لئے بالواسطہ مذاکرات ہوئے ہیں، ایران کے ایک زیر زمین جوہری مرکز پر حملے کے بعد مبصرین صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اتوار کے روز، نطنز کی ایرانی تنصیبات پر ہونے والا حملہ کیا امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والے بلواسطہ مذاکراتی عمل کو متاثر کر سکتا ہے؟ کیا اس حملے سے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی میں شدت آنے کا خدشہ ہے؟۔۔مبصرین ان سوالوں کے جواب تلاش کر رہے ہیں۔ ایران نے اپنی زیر زمین ایٹمی تنصیب پر حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق، ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، سعید خطیب ذادے کا کہنا ہے کہ اس حملے سے یورینیم کے افزودہ سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچا ہے اور یہ کہ ایران اس حملے کا بدلہ لے گا۔ انتقام کی نوعیت کیا ہوگی، یہ ایران کی جانب سے نہیں بتایا گیا۔
ایران کے جوہری امور کے سربراہ علی اکبر صالحئ نے اتوار کے روز اس حملے کو نیوکلئیر دہشت گردی قرار دیا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے علی اکبر صالحئ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران اس حملے کی مذمت کرتا ہے اور زور دیتا ہے کہ بین الاقوامی اداروں اور انٹرنیشنل ایٹامک انرجی کمیشن اس جوہری دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات کرے۔
ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کرنے والے، اقوامِ متحدہ کے ادارے دی انٹرنیشنل ایٹامک انرجی کمیشن نے کہا ہے کہ وہ صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
نطنز کی جوہری تنصیبات پر ماضی میں بھی حملے ہو چکے ہیں۔ یہاں دس سال پہلے سٹکس نیٹ نامی سائبر حملہ ہوا تھا، جس کا الزام امریکہ اور اسرائیل پر عائد کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال جولائی میں بھی نطنز میں سینٹری فیوجز بنانے والے پلانٹ پر ایک پر اسرار حملہ ہوا تھا، جسے ایران کی جانب سے 'سبوتاژ' قرار دیاگیا تھا۔
امریکہ اور اسرائیل نے تازہ ترین حملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
اس تازہ حملے سے ایک روز پہلے، ایران کے صدر حسن روحانی نے ٹیلی وژن پر براہ راست نشریات میں نطنز میں یورینیم کی افزودگی کے لئے جدید ترین سینٹری فیوجز کی افتتاحی تقریب دیکھی تھی۔ یہ سینٹری فیوجز جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں ایک اہم حصہ ہیں۔ اس موقعہ پر صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ان کا ملک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتا ہے۔
صدر روحانی نے یہ اعادہ بھی کیا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام "غیر فوجی اور پر امن مقاصد کے لیے ہے"۔
لیکن یہ تازہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب امریکہ اور ایران دونوں ہی سن 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے بالواسطہ بات چیت کے دوسرے مرحلے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اُس معاہدے کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کا نام دیا گیا تھا۔
ایران کا موقف ہے کہ امریکہ، ایران پر عائد کردہ تمام پابندیوں کو ہٹائے۔ تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران کا یہ مطالبہ تعطل کا باعث بن سکتا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے میں واپسی کا عندیہ دیا ہے بشرطیکہ ایران یورینیم کی افزودگی کی حدود کی پوری طرح تعمیل کرے۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران پر پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کے تعلقات میں کشیدگی آ گئی تھی۔
سابق صدر ٹرمپ نے ایران پر غیر قانونی بیلسٹک میزائل پروگرام بنانے اور خطے میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات لگاتے ہوئے معاشی پابندیاں عائد کی تھیں۔ ایران نے ان پابندیوں کو رد کرتے ہوئے اور اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنی جوہری سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔