یہ مذاکرات منگل کے دِن ویانا میں شروع ہوئے، جس سے قبل گذشتہ ماہ اِسی گروپ کی بات چیت مجوزہ سمجھوتے کی تفصیل طے کیے بغیر تعطل کا شکار ہوگئی تھی
واشنگٹن —
ایران کے متنازع جوہری پروگرام کو ترک کرنے سے متعلق سمجھوتے کی جولائی کی حتمی تاریخ سے قبل، ایران اور چھ عالمی طاقتوں نے نیوکلیئر مذاکرات کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔
یہ مذاکرات منگل کے دِن ویانا میں شروع ہوئے، جس سے قبل گذشتہ ماہ اسی گروپ کی بات چیت مجوزہ سمجھوتے کی تفصیل طے کیے بغیر تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔
امریکہ اور ایرانی اہل کاروں نے گذشتہ ہفتے علیحدگی میں ملاقات کی تھی، لیکن اس میں کوئی معمولی پیش رفت ہی ہو پائی۔
منگل کے روز، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کے ترجمان، مائیکل مَن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 20 جولائی کی ڈیڈلائن کے پیشِ نظر، مذاکرات کار اپنی کوششوں کو تیز کر رہے ہیں۔
مَن کے بقول، ’ظاہر ہے کہ سب سے اہم بات یہی ہے کہ کس معیار کا سمجھوتا ہوتا ہے۔ لیکن یقینی طور پر ہماری یہی کوشش ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو اسے پایہٴتکمیل تک پہنچایا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ ایران اِسی جذبے کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوگا‘۔
اتوار کے دِن، ایک سینئر ایرانی اہل کار نے کہا کہ جوہری مذاکرات کو مزید چھ ماہ کے لیے بڑھایا جا سکتا ہے، اگر اگلے ماہ کی حتمی تاریخ تک کوئی سمجھوتا نہیں ہو جاتا۔ ایران اور امریکہ کے علاوہ، شرکاٴ میں روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔
امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، میری ہارف نے پیر کے روز کہا کہ مذاکرات ایک مشکل مرحلے میں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ زیادہ وقت باقی نہیں رہا اور یہ کہ، کوئی زیادہ پیش رفت حاصل نہیں ہو سکی۔
نومبر میں ایران مغربی تعزیرات کو نرم کیے جانے کے بدلے یورینئم کی افزودگی ترک کرنے اور ایک مربوط سمجھوتے پر پہنچنے پر رضامند ہوا تھا۔
امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو شبہ ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
ایران اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام سختی سے پُرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
یہ مذاکرات منگل کے دِن ویانا میں شروع ہوئے، جس سے قبل گذشتہ ماہ اسی گروپ کی بات چیت مجوزہ سمجھوتے کی تفصیل طے کیے بغیر تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔
امریکہ اور ایرانی اہل کاروں نے گذشتہ ہفتے علیحدگی میں ملاقات کی تھی، لیکن اس میں کوئی معمولی پیش رفت ہی ہو پائی۔
منگل کے روز، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کے ترجمان، مائیکل مَن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 20 جولائی کی ڈیڈلائن کے پیشِ نظر، مذاکرات کار اپنی کوششوں کو تیز کر رہے ہیں۔
مَن کے بقول، ’ظاہر ہے کہ سب سے اہم بات یہی ہے کہ کس معیار کا سمجھوتا ہوتا ہے۔ لیکن یقینی طور پر ہماری یہی کوشش ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو اسے پایہٴتکمیل تک پہنچایا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ ایران اِسی جذبے کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوگا‘۔
اتوار کے دِن، ایک سینئر ایرانی اہل کار نے کہا کہ جوہری مذاکرات کو مزید چھ ماہ کے لیے بڑھایا جا سکتا ہے، اگر اگلے ماہ کی حتمی تاریخ تک کوئی سمجھوتا نہیں ہو جاتا۔ ایران اور امریکہ کے علاوہ، شرکاٴ میں روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔
امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، میری ہارف نے پیر کے روز کہا کہ مذاکرات ایک مشکل مرحلے میں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ زیادہ وقت باقی نہیں رہا اور یہ کہ، کوئی زیادہ پیش رفت حاصل نہیں ہو سکی۔
نومبر میں ایران مغربی تعزیرات کو نرم کیے جانے کے بدلے یورینئم کی افزودگی ترک کرنے اور ایک مربوط سمجھوتے پر پہنچنے پر رضامند ہوا تھا۔
امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو شبہ ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
ایران اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام سختی سے پُرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔