ایران کی حکومت کو اپنے متنازع جوہری پروگرام کے باعث تعزیرات کا سامنا ہے جس سے اس کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں۔
ایران کے مذاکرات کار منگل کو جینیوا میں اقوام متحدہ کے رابطہ گروپ سے ملاقات کر رہے ہیں جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا تہران میں حکومت کی تبدیلی سے اس کے جوہری پروگرام پر طویل عرصے سے جاری ’ڈیڈ لاک‘ کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ ایران سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔ ایران کی حکومت کو اپنے متنازع جوہری پروگرام کے باعث تعزیرات کا سامنا ہے جس سے اس کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں۔
ایران اور بین الاقوامی مذاکرات کار آخری مرتبہ تین سال قبل جنیوا میں ملے تھے، لیکن یہ مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت نا ہوئے کیوں کہ ایران اقوام متحدہ کو یہ یقین دلانے کے لیے شواہد پیش نہیں کر سکا کہ وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا ہے۔
تاہم اب صورت حال قدر مختلف ہے۔ رواں سال جون میں ایران میں غیر متوقع طور پر اعتدال پسند حسن روحانی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔
برطانیہ کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹیڈیز میں ایرانی امور کے ماہر مارک فٹزپاٹریک کہتے ہیں کہ روحانی کے بیانات بالخصوص گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اُن کے نئی شروعات سے متعلق بیان کے بعد تعلقات میں پیش رفت کی نوید پیدا ہوئی ہے۔
مارک کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں ایران کسی نئی تجویز کے ساتھ آئے گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ شاید کوئی بڑی پیش رفت نا ہو لیکن معاملات کچھ آگے بڑھیں گے۔
تاہم ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کی اقوام متحدہ کے رابطہ گروپ سے ملاقات کے بعد جینوا میں مذاکرات پر آمادگی اور اس سے قبل صدر روحانی کی اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما سے ٹیلی فون پر بات چیت ایرانی رہنما کو اپنے وطن میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ تہران معاملات میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
دریں اثناء صدر اوباما نے امریکی کانگریس سے درخواست کی تھی کہ نئی سفارتی کوششوں کے آغاز کے تناظر میں وہ ایران کے خلاف عائد اقتصادی تعزیرات میں مزید اضافہ نا کرے۔
اقوام متحدہ ایران سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔ ایران کی حکومت کو اپنے متنازع جوہری پروگرام کے باعث تعزیرات کا سامنا ہے جس سے اس کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں۔
ایران اور بین الاقوامی مذاکرات کار آخری مرتبہ تین سال قبل جنیوا میں ملے تھے، لیکن یہ مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت نا ہوئے کیوں کہ ایران اقوام متحدہ کو یہ یقین دلانے کے لیے شواہد پیش نہیں کر سکا کہ وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا ہے۔
تاہم اب صورت حال قدر مختلف ہے۔ رواں سال جون میں ایران میں غیر متوقع طور پر اعتدال پسند حسن روحانی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔
برطانیہ کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹیڈیز میں ایرانی امور کے ماہر مارک فٹزپاٹریک کہتے ہیں کہ روحانی کے بیانات بالخصوص گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اُن کے نئی شروعات سے متعلق بیان کے بعد تعلقات میں پیش رفت کی نوید پیدا ہوئی ہے۔
مارک کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں ایران کسی نئی تجویز کے ساتھ آئے گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ شاید کوئی بڑی پیش رفت نا ہو لیکن معاملات کچھ آگے بڑھیں گے۔
تاہم ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کی اقوام متحدہ کے رابطہ گروپ سے ملاقات کے بعد جینوا میں مذاکرات پر آمادگی اور اس سے قبل صدر روحانی کی اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما سے ٹیلی فون پر بات چیت ایرانی رہنما کو اپنے وطن میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ تہران معاملات میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
دریں اثناء صدر اوباما نے امریکی کانگریس سے درخواست کی تھی کہ نئی سفارتی کوششوں کے آغاز کے تناظر میں وہ ایران کے خلاف عائد اقتصادی تعزیرات میں مزید اضافہ نا کرے۔