ایران میں 2 مارچ کو ملک کے نویں پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں ۔ ایرانی مجلس یا پارلیمنٹ کی 290 نشستوں کے لیے 3400 سے زیاد ہ امیدوار میدان میں ہیں۔
ان انتخابات میں وہ اصلاح پسند حصہ نہیں لے رہے جنہوں نے 2009ء کے صدر احمدی نژاد کے متنازع انتخابات کے خلاف عوامی تحریک کی قیادت کی تھی۔ اصلاح پسندوں نے موجودہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کررکھا ہے۔ کیونکہ ان کے اہم راہنما میر حسین موسوی اور مہدی کروبی بدستور اپنے گھروں پر نظر بند ہیں۔جنہیں گذشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں کے بعد ، جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی، نظر بند کردیا گیا تھا۔
لیکن اصلاح پسندی کی دعویدار کچھ جماعتیں ، جن کے پاس پارلیمنٹ کی کچھ نشستیں ہیں، الیکشن لڑ رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ جمعے کے انتخابات دراصل قدامت پسندوں کے دو کیمپوں کے درمیان مقابلہ ہے۔ جن میں سے ایک کیمپ صدر احمد نژاد کے حامیوں کا ہے۔جن کے عہدے کی مدت 2013ء میں ختم ہورہی ہے۔ ان کا کیمپ پارلیمنٹ پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ اگلے سال اقتدار سے مسٹر نژاد کی رخصتی کے بعد بھی اقتدار ان کے ہاتھوں میں رہے۔
دوسرا کیمپ ایران کی اس روایتی اسٹیبلشمنٹ کا ہے جو سرکاری اداروں اور معیشت پر حاوی ہے ۔اور جومسٹر احمدی نژاد کی پالیسیوں کو اپنے اثرورسوخ اور اختیارات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
دونوں کیمپ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہیں ، لیکن ان کا اختلاف اس مذہبی ریاست میں صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر ہے۔
ایران میں اہل ووٹروں کی تعداد تقریباً 4 کروڑ 80 لاکھ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ اصل امتحان یہ ہے کہ جمعے کے روز کتنے ووٹر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے پولنگ اسٹیشنوں پر جائیں گے۔کیونکہ صدارتی انتخاب میں جعل سازی اور دھوکہ دہی کے مبینہ الزامات کے بعد 2009ء اور 2010ء کےبڑے عوامی مظاہروں نے ایرانیوں کی سوچ کو کافی متاثر کیا ہے۔
ایرانی میڈیا اور عہدے دار عوام پر یہ زور دے رہے ہیں کہ بیرونی دنیا میں اپنے ملک کا تشخص بہتر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے جائیں۔کیونکہ ملک کی جوہری کوششوں کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں سے بیرونی دنیا میں ایران کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
جمعے کے پارلیمانی انتخابات کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سے یہ واضح ہوجائے گا ملک کے دو قدامت پسند کیمپوں میں سے کون سا کیمپ اگلے سال صدارتی عہدہ حاصل کرسکتا ہے۔
2009ء میں صدراحمدی نژاد کے دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے کے بعد یہ پہلے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ صدارتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئےتھے۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات کو، جس پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہیں، شفاف رکھنے کے لیے کس قدر ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔