بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں گنجان آبادی والے علاقوں اور دوسرے آسان اہداف پر حملوں کے علاوہ، ایران امریکی مفادات پر اور علاقے میں اس کے اتحادیوں پر، جیسے سعودی عرب پر، اسرائیلی پالیسی کی حمایت کی پاداش میں دہشت گردوں جیسے حملے کر سکتا ہے ۔
ایرانی حکومت نے صاف طور سے کہہ دیا ہے کہ اگر اس کی نیوکلیئر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، تو وہ جوابی کارروائی کرے گا ۔ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے گذشتہ ماہ تہران میں ایک تقریر میں کہا تھا کہ جتنی شدت سے ایران کے دشمن اس پر حملہ کریں گے، ایران بھی اتنا ہی سخت جواب دے گا۔
اسرائیل کی میزائل کی دفاعی تنظیم کے سابق ڈائریکٹر اوزی روبن نے خطرات کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے’’غور کیا جائے تو ایران کے خطرے سے اسرائیل کی پوری معیشت منجمد ہو کر رہ جائے گی۔ ہوائی اڈے اور بندرگاہیں بند ہو جائیں گی۔ بیرونی دنیا سے ہمارے رابطے اور ٹرانسپورٹیشن اسرائیل کی معیشت کو سست کردینے، اور بڑی حد تک روک دینے کے لیے کافی ہوگی۔‘‘
لیکن ایران کے بلسٹک میزائل عموماً ٹھیک نشانے پر نہیں پہنچتے اور تہران اپنے ان اتحادیوں پر زیادہ انحصار کرے گا جو اسرائیلی علاقے کے نزدیک واقع ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں شام کا نام لیا۔
’’تا ہم میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شام کے ہتھیاروں کا ذخیرہ، اس کے میزائل اور راکٹ اسرائیل کے لیے اصل خطرہ ہیں۔ اس لیے نہیں کہ شام کے پاس ایرانیوں سے زیادہ میزائل ہیں، بلکہ اس لیے کہ اس کے پاس ایسے میزائل زیادہ ہیں جن سے شام کے علاقے سے حملہ کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ہمارے علاقے شام کے نزدیک ہیں۔ ایران سے اسرائیل کا نزدیک ترین ہدف 1,200 دور ہے جب کہ شام اسرائیل سے ملا ہوا ہے ۔‘‘
غزہ کی پٹی میں، ایران برسوں سے حماس کی تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا ہے ۔ لیکن اس گروپ نے حال ہی میں خود کو شام اور ایران کی شیعہ حکومتوں سے دور کرنا شروع کر دیا ہے ۔ اس طرح ایران کے جھگڑے میں اس گروپ کی شرکت کا امکان کم ہو گیا ہے ۔
اس طرح صرف لبنان میں حزب اللہ کا گروپ رہ جاتا ہے جو اندازاً 40,000 راکٹوں سے مسلح ہے، اور جس کے پاس ہر روز 1,000 راکٹ لانچ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔
لیکن اسرائیلی فوج کی اسٹریٹجک پلاننگ کے سابق سربراہ، ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل شلومو بروم کہتے ہیں کہ حزب اللہ کو ایران کے لیے لڑائی لڑنے میں تامل ہو سکتا ہے۔
’’میرے خیال میں اس بات کا اچھا خاصا امکان موجود ہے کہ حزب اللہ بھی یہی فیصلہ کرے گی کہ ایران کی جوابی کارروائی میں شرکت نہ کرے کیوں کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو انہیں انتہائی سخت سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ اس سے لبنان میں یہ تاثر پیدا ہو جائے گا کہ حزب اللہ صحیح معنوں میں لبنان کی قومی تحریک نہیں ہے کیوں کہ وہ غیر ملکی مفادات ، یعنی ایرانی مفادات کی خاطر، لبنان کی قربانی دینے کو تیار ہے ۔‘‘
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فوجی اقدامات کے علاوہ، ایران یہ شرط بھی عائد کر سکتا ہے کہ آبنائے ہرمز سے گذرنے والے تمام ٹینکروں کا معائنہ کیا جائے گا ، تا کہ ٹریفک کی آمدو رفت میں خلل ڈالا جا سکے ۔ لیکن بیشتر لوگوں کو شبہ ہے کہ تہران اس بحری آبگاہ کو پوری طرح بند کرے گا، کیوں کہ اس طرح اسے اپنی تیل کی بر آمدات کو قربان کرنا پڑے گا ۔
تا ہم، اسرائیل کی طرف سے کوئی بھی حملہ اور ایران کے جوابی اقدامات اس جھگڑے کو ایسی سمت میں دھکیل سکتےہیں کہ اسے کنٹرول کرنا نا ممکن ہو جائے۔ ٹریٹا پارسی واشنگٹن ڈی سی میں قائم نیشنل ایرانی امریکی کونسل کی صدر ہیں۔
وہ کہتی ہیں’’مجھے ڈر یہ ہے کہ اگر اسرائیل یا امریکہ کی طرف سے کوئی پیشگی حملہ کیا گیا جو کامیاب رہا، تو ان کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنگ وسیع علاقے میں پھیل جائےگی اور اس کے جو اثرات ہوں گے ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔‘‘
بروم جو اب تل ابیب میں سیکورٹی کے تجزیہ کار ہیں ، کہتے ہیں کہ خطرہ یہ ہے کہ تہران کے یہ اندازے کہ وہ اس تنازع کو مزید وسعت دیے بغیر کہاں تک جا سکتے ہیں، غلط ثابت ہو سکتے ہیں۔
’’میری تشویش یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایرانی یہ سوچیں کہ اگر وہ خلیج کے علاقے میں عرب ملکوں کے خلاف یعنی تیل کی فراہمی روکنے کے لیے امریکی مفادات کے خلاف، جوابی کارروائی کرتےہیں، اور ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھتے، تو وہ یہ سوچ سکتےہیں کہ یہ کوئی اتنی بڑی اشتعال انگیزی نہیں ہے کہ امریکہ اس جنگ میں شامل ہو جائے۔ لیکن یہ اندازہ بڑی آسانی سے غلط ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
بروم انتباہ کرتے ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے بارے میں اکثر غلط اندازے لگا لیے جاتےہیں، اور اتنی سنگین غلطی سے اس علاقے میں جو پہلے ہی غیر مستحکم ہے، سنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے ۔