ایران کے وزیر خارجہ نے جمعرات کے روز سعودی عرب کے دورے کا آغاز کیا ۔تہران کے اعلیٰ سفارت کارکا برسوں بعد سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ ہے جبکہ دونوں ممالک نے چینی ثالثی سےاپنے کشیدہ تعلقات کو بہتر کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے سعودی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا کہ سعودی عرب اور ایران تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پیش رفت کر رہے ہیں۔
حسین امیرعبداللہیان نے اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ تہران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات درست سمت پر گامزن ہیں اور ہمارےدرمیان بات چیت کامیاب رہی ہے۔
حسین امیرعبداللہیان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب سعودی عرب اور ایران دونوں اپنے ملکوں کے درمیان تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے طویل عرصے سے ایک دوسرے کو حریف سمجھتے آئے ہیں۔ تاہم ابھی بھی چیلنجزدرپیش ہیں ۔ان میں خاص طور پر ایران کے جوہری پروگرام میں پیشرفت، یمن میں سعودی قیادت میں جنگ اور خطے کی آبی گزرگاہوں کی سیکیورٹی جیسے معاملات شامل ہیں ۔
ایرانی وزیر خارجہ ریاض کا دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہے ہیں جب ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے سفارتی مشن دوبارہ کھول رہے ہیں۔وزیر خارجہ کے ہمراہ سفیر علی رضا عنایتی بھی ہیں جو سعودی عرب میں ایران کے نئے سفارتکار کے طور پر فرائض سنبھال رہے ہیں ۔
سعودی عرب نے 2016 میں ایران کے ساتھ تعلقات اس وقت منقطع کر لیے تھے جب مظاہرین نے ایران میں سعودی سفارتی تنصیبات پر حملہ کر دیا۔ اس سے پہلے سعودی عرب نے ایک ممتاز شیعہ عالم کو پھانسی دے دی تھی جس کے نتیجے میں مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اقتدار میں عروج کا آغازہوا تھا ۔ شاہ سلمان کے بیٹے شہزادہ محمد نے اس سے قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا نازی جرمنی کے ایڈولف ہٹلر سے موازنہ کیا تھا اور ایران پر حملے کی دھمکی بھی دی تھی۔
امریکہ اس کے بعد ایران کےساتھ اس جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گیا جو 2018 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر طے کیا گیا تھا ۔
ایران کو اس کے بعد حملوں کے ایک سلسلے میں مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ ان حملوں میں 2019 میں سعودی عرب کی تیل کی صنعت کے مرکز کو نشانہ بنانے کا الزام بھی شامل تھا ۔ 2019 میں کیے گئے حملے کے نتیجے میں عارضی طور پر مملکت کی خام پیداوار آدھی رہ گئی تھی ۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں مذہب کا بھی کلیدی کردار رہا ہے۔ خانہ کعبہ سعودی عرب میں ہی ہے اور اسی کعبے کا رخ کرکے مسلمان دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ سعودی عرب خود کو دنیا میں کلیدی سنی قوم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جبکہ ایران کی تھیوکریسی خود کو شیعہ اقلیت کا محافظ سمجھتی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا اور امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد سعودی عرب سمیت خلیجی عرب ممالک نے ایران کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنے کا از سر نو جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔
سعودی عرب اور ایران نے مارچ میں چین کی ثالثی سے سفارتخانے دوبارہ کھولنے کے لیے معاہدہ کیا تھا۔یمن میں جنگ بدستور جاری ہے تاہم سعودی زیرقیادت حملوں میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی ہے اور وہ اس تنازعے سے الگ ہونے کی کوششوں میں ہے ۔
اس تنازعے نے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو دارالحکومت صنعا پر برسوں سے اپنی گرفت برقرار رکھے دیکھا ہے۔
SEE ALSO: کیا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے؟ادہر امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کر لیا جائے جبکہ ریاض بظاہر دفاعی ضمانتیں اور امریکی جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی کا خواہاں ہے۔
ایران کی جانب سےاس ثالثی کو براہ راست تسلیم نہ کرتے ہوئے امیرعبداللہیان نے کہا کہ ایران فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں ۔)