ایران سعودی عرب کشیدگی، عراق کی ثالثی کی پیش کش

فائل

عراقی وزیر خارجہ ابراہیم الجعفری نے اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف کے ساتھ مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں عراق کا محل وقوع یہ گنجائش فراہم کرتا ہے کہ کشیدگی میں کمی لانے میں کردار ادا کیا جا سکے

عراقی وزیر خارجہ نے بدھ کو اپنے ہمسایہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے معروف شیعہ عالم کو سزائے موت دیے جانے کے بعد اِس ہفتے ایران سعودی تعلقات میں کشیدگی آئی ہے، جس پر تہران میں برہم مظاہرین نے سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا، جب کہ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا۔

عراقی وزیر خارجہ ابراہیم الجعفری نے اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف کے ساتھ مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں عراق کا محل وقوع یہ گنجائش فراہم کرتا ہے کہ کشیدگی میں کمی لانے میں کردار ادا کیا جا سکے۔

روس نے بھی ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے، جب کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری ظریف اور سعودی وزیر خارجہ عبد الجبیر، دونوں کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے رہے ہیں۔

امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان جان کِربی نے منگل کے روز کہا کہ کیری نے کئی بار ایرانی اور سعودی رہنماؤں سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ’تحمل سے کام لیا جائے۔‘ اُنھوں نے مکالمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ خطے میں دیگر اہم معاملات دھیان طلب ہیں، جن میں شام اور یمن کی صورت حال شامل ہے۔

کِربی کے بقول، ’یہ اقتدار اعلیٰ کے معاملات ہیں۔ ملکوں کو اپنے طور پر فیصلے کرنے ہوتے ہیں آیا وہ کس سے بات کریں یا کن سے گفتگو نہ کریں۔ ہمارے خیال میں اس مرحلے پر جب دوسرے کئی معاملات درپیش ہیں اور جو پیش رفت ہمیں حاصل ہوئی ہے، نہ صرف داعش کے خلاف لیکن شام میں سیاسی عمل کی جانب، اس کا تقاضا ہے کہ خطے میں استحکام ہو، تاکہ فیصلے ہوں۔۔۔ یا پھر یہ فیصلہ ہو کہ ہم رابطہ نہیں کریں گے یا گفتگو یا مکالمے کی راہیں بند کر دیں‘۔

ظریف نے بدھ کے روز کی اخباری کانفرنس میں ایران کی جانب سے سعودی عرب پر تنقید کے بارے میں مزید کہا کہ سعودی حکومت کو چاہیئے کہ وہ ’کشیدگی پر اکسانا‘ بند کرے۔