ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جوہری مذاکرات کرنے والی چھ عالمی طاقتوں کو معاہدے پر موجود باقی ماندہ اختلافات دور کرنے کے لیے نئی "تعمیری تجاویز" پیش کردی ہیں۔
لیکن مذاکرات میں شریک مغربی ملکوں کے نمائندوں نے ایرانی دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ایران کی جانب سے کوئی نئی تجویز نہیں ملی ہے۔
ایران کے خبر رساں ادارے 'اِسنا' نے بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ویانا میں جاری مذاکرات میں شریک ایرانی وفد نے چھ عالمی طاقتوں کے نمائندہ گروپ 'پی5+1' کے نمائندوں کو بعض تجاویز پیش کی ہیں۔
'اِسنا' نے ایک ایرانی سفارت کار کے حوالے سے کہا ہے کہ تجاویز کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے مسودے پر موجود اختلافات دور کرنا ہے۔
لیکن،خبر رساں ادارے کے مطابق، ایرانی سفیر نے واضح کیا ہے کہ ایران مذاکرات میں ان معاملات پر کوئی لچک نہیں دکھائے گا جو اس کے لیے "سرخ لکیر" کی اہمیت رکھتے ہیں اور جنہیں ایرانی قیادت عبور نہیں کرسکتی۔
تاہم مذاکرات میں شریک مغربی سفارت کاروں نے کہا ہے کہ انہیں ایران کی جانب سے اختلافات کے حل کے لیے کوئی ٹھوس تجاویز موصول نہیں ہوئی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں شریک مغربی ملکوں کے کم از کم دو سفارت کاروں نے ایران کی جانب سے کوئی نئی تجویز پیش کیے جانے سے لاعلمی کااظہار کیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ حتمی معاہدے کی راہ میں جو اختلافات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ان میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایران پر اسلحے اور میزائلوں کی خریداری اور تیاری سے متعلق عائد پابندیاں اور ان کے خاتمے کا طریقہ کار اور جدید سینٹری فیوجزپر تحقیق اور ان کی تیاری کے معاملات سرِ فہرست ہیں۔
گزشتہ روز فریقین نے مذاکرات کی ڈیڈلائن سات جولائی سے بڑھا کر 10 جولائی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مذاکرات کی تکمیل اور کسی حتمی معاہدے پر اتفاقِ رائے کی یہ تیسری ڈیڈلائن ہے۔
اس سے قبل رواں سال اپریل میں طے پانے والے عبوری معاہدے کے تحت فریقین نے ایران کے جوہری پروگرام پر تمام اختلافات طے کرنے اور حتمی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے 30 جون کی تاریخ مقرر کی تھی۔
فریقین 30 جون سے ایک ہفتہ قبل مذاکرات کے آخری دور کے لیے ویانا میں جمع ہوئے تھے لیکن ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مسلسل مذاکرات کے باوجود چند امور پر اختلافات باقی رہنے کے باعث آخری وقت میں معاہدے کی ڈیڈلائن سات جولائی تک بڑھا دی گئی تھی۔
ڈیڈلائن میں مسلسل دوسری توسیع کے بعد مذاکرات میں شریک ملکوں میں سے بیشتر کے وزرائے خارجہ اپنے اپنے وطن لوٹ گئے ہیں۔
لیکن امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری، ان کے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موغیرینی بدستور ویانا میں موجود ہیں جہاں وہ اختلافی امور طے کرنے پر گفتگو کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ لوغان فیبیوس اور فلپ ہیمنڈ بھی بدھ کی شام دوبارہ ویانا پہنچ جائیں گے۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ پیر کی شب امریکی اور ایرانی وفود میں ایران پر عائد ہتھیاروں اور میزائلوں سے متعلق پابندیاں اٹھانے کے معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی تھی جس کا تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔
ایرانی وفد کا اصرار ہے کہ روایتی ہتھیاروں اور میزائلوں کا ایران کے جوہری پروگرام سے کوئی تعلق نہیں لہذا ان سے متعلق پابندیوں کو فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' نے ہوٹل میں مقیم "ذرائع" کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پیر کو تخلیے میں ہونے والی ملاقات کے دوران ایرانی اور امریکی وزرائے خارجہ ایک دوسرے پر اتنی زور سے چیخ چلا رہے تھے کہ ایک امریکی سفارت کار کو انہیں جا کر یہ بتانا پڑا کہ ان کی آوازیں کمرے سے باہر صاف سنائی دے رہی ہیں۔
مذاکرات میں شریک روس اور چین عندیہ دے چکے ہیں کہ انہیں ایران پر عائد ہتھیاروں سے متعلق پابندیاں اٹھانے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ معاہدے طے پانے کی صورت میں اس کی حمایت کریں گے۔
تاہم مذاکرات میں شریک چاروں مغربی ممالک – امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی – اس موقف کے مخالف ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی غرض سے ایران پر یہ پابندیاں کسی حد تک برقرار رکھنے اور ان کے مرحلہ وار خاتمے کی حمایت کر رہے ہیں۔