ایران کی حدود میں امریکی جاسوس طیارہ گرنے کے واقعہ پر تہران نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
اوباما انتظامیہ نے ایران سے اس طیارے کی واپسی کے لیے باضابطہ درخواست کی تھی لیکن ایرانی وزیر خارجہ رامین مہمان پرست نے منگل کے روز کہا کہ اس مطالبے کے بجائے امریکہ کو معذرت کرنی چاہیئے۔
ایران نے اس واقعے پر اقوام متحدہ سے بھی شکایت کی ہے اور منگل کے روز اپنے اس موقف کو دہرایا کہ امریکہ نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔
امریکی صدر براک اوباما نے ایک روز قبل صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں اس واقعہ کو ’’خفیہ انٹیلی جنس معاملات‘‘ قرار دیتے ہوئے اس پر کچھ کہنے سے گریز کر دیا۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق یہ جدید طیارہ یا تو افغانستان کی فضائی حدود سے نکل کر ایرانی حدود میں داخل ہوا یا پھر ایران کے جوہری پروگرام کی جاسوسی کر رہا تھا۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ڈرون کی واپسی کے لیے کہا ہے اور’’ وہ دیکھے گا کہ ایران کا اس پر ردعمل کیا ہوگا‘‘۔ لیکن وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ ایران کے ماضی کے رویے کو دیکھتے ہوئے’’ہمیں توقع نہیں کہ وہ اس پر عمل کرے‘‘۔
ایران کی شکایت اور امریکہ کی درخواست سوئٹزرلینڈ کے ذریعے کی گئیں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔