محکمہ دفاع کے ترجمان جارج لٹل کا کہنا ہے کہ MQ-1 نامی بغیر ہوا باز کا یہ طیارہ، جسے عرف عام میں ڈرون کہا جاتا ہے، معمول کی خفیہ کارروائی پر تھا۔
امریکی محکمہ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ ایرانی لڑاکا طیاروں نے گزشتہ ہفتے خلیج فارس پر پرواز کرنے والے اس کے ڈرون طیارے پر فائرنگ کی۔
پینٹاگون نے اسے جنگی کارروائی کہنے سے گریز کیا لیکن حکام نے بتایا ہے کہ امریکہ نے یکم نومبر کو بین الاقوامی آبی حدود میں ہونے والے اس واقعے پر ایران سے احتجاج کیا ہے۔
محکمہ دفاع کے ترجمان جارج لٹل کا کہنا ہے کہ MQ-1 نامی بغیر ہوا باز کا یہ طیارہ، جسے عرف عام میں ڈرون کہا جاتا ہے، معمول کی خفیہ کارروائی پر تھا۔
’’ایک غیر مسلح بغیر ہوا باز کا امریکی فوجی طیارہ MQ-1 خلیج عرب پر معمول کی نگرانی کر رہا تھا جس پر ایران کے SU-25 لڑاکا طیارے نے گولیاں برسائیں۔ یہ واقعہ بین الاقوامی پانیوں پر ایرانی سمندری حدود سے تقریباً 16 ناٹیکل میل (30 کلومیٹر) دور پیش آیا۔ MQ-1 کو کوئی نقصان نہیں ہوا اور وہ باحفاظت اڈے پر واپس آگیا۔‘‘
امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر نظر رکھنے کے لیے تواتر سے نگرانی کرتا رہتا ہے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ایران نے اس کے ڈرون پر فائرنگ کی ہے۔
لیکن ایران کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ سال اپنی حدود میں ایک امریکی ڈرون کو مار گرایا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق وہ طیارہ غیر ارادی طور پر وہاں اترا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ صدر براک اوباما کو اس تازہ ترین واقعے کے فوراً بعد مطلع کر دیا گیا تھا۔
ترجمان لٹل کا کہنا تھا کہ محکمہ دفاع خفیہ کارروائیوں پر تبصرہ نہیں کرتا۔ ان کے بقول یہ اطلاعات کسی نے افشا کیں۔
’’بظاہر کسی نے بلا اجازت یہ (معلومات افشا) کیا اور یہ بدقسمتی ہے۔‘‘
پینٹاگون میں حکام نے کہا ہے کہ انھوں نے ایران پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس تازہ واقعے پر کسی ردعمل کے منصوبوں کے بارے میں انھوں نے کچھ نہیں کہا۔
پینٹاگون نے اسے جنگی کارروائی کہنے سے گریز کیا لیکن حکام نے بتایا ہے کہ امریکہ نے یکم نومبر کو بین الاقوامی آبی حدود میں ہونے والے اس واقعے پر ایران سے احتجاج کیا ہے۔
محکمہ دفاع کے ترجمان جارج لٹل کا کہنا ہے کہ MQ-1 نامی بغیر ہوا باز کا یہ طیارہ، جسے عرف عام میں ڈرون کہا جاتا ہے، معمول کی خفیہ کارروائی پر تھا۔
’’ایک غیر مسلح بغیر ہوا باز کا امریکی فوجی طیارہ MQ-1 خلیج عرب پر معمول کی نگرانی کر رہا تھا جس پر ایران کے SU-25 لڑاکا طیارے نے گولیاں برسائیں۔ یہ واقعہ بین الاقوامی پانیوں پر ایرانی سمندری حدود سے تقریباً 16 ناٹیکل میل (30 کلومیٹر) دور پیش آیا۔ MQ-1 کو کوئی نقصان نہیں ہوا اور وہ باحفاظت اڈے پر واپس آگیا۔‘‘
امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر نظر رکھنے کے لیے تواتر سے نگرانی کرتا رہتا ہے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ایران نے اس کے ڈرون پر فائرنگ کی ہے۔
لیکن ایران کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ سال اپنی حدود میں ایک امریکی ڈرون کو مار گرایا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق وہ طیارہ غیر ارادی طور پر وہاں اترا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ صدر براک اوباما کو اس تازہ ترین واقعے کے فوراً بعد مطلع کر دیا گیا تھا۔
ترجمان لٹل کا کہنا تھا کہ محکمہ دفاع خفیہ کارروائیوں پر تبصرہ نہیں کرتا۔ ان کے بقول یہ اطلاعات کسی نے افشا کیں۔
’’بظاہر کسی نے بلا اجازت یہ (معلومات افشا) کیا اور یہ بدقسمتی ہے۔‘‘
پینٹاگون میں حکام نے کہا ہے کہ انھوں نے ایران پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس تازہ واقعے پر کسی ردعمل کے منصوبوں کے بارے میں انھوں نے کچھ نہیں کہا۔