واشنگٹن پوسٹ
واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ یمن میں جٕس پہلے امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کا ایک لیڈر اور اُس کے پانچ ساتھی ہلاک کئے گئے تھے، اُس کو اب دس سال ہو چُکے ہیں۔ لیکن اُس کے بعد سے نشانہ باندھ کر، چار سو سے زیادہ ڈرون حملے پاکستان،یمن اور صومالیہ میں کیے جاچکے ہیں ۔یہ وُہ ملک ہیں جہاں امریکہ کوئی روائتی جنگ نہیں لڑ رہا، اور جہاں اخبار کے بقول لگ بھگ تین ہزار افراد ان حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں اور جن میں سے عام شہریوں کی تعداد بیسیوں بلکہ شاید سینکڑوں تک جا تی ہے، اور ایسے میں جب اوباما انتظامیہ افغانستان میں اپنے فوجی مشن کی بساط لپیٹ رہی ہے، اُس کا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو ہلاک کرنا یا زندہ پکڑنا ہے۔ اُن لوگوں کی فہرست سالہا سال تک برابر مرتّب ہوتی رہے گی۔ جس پر اخبار کے بقول نہ صرف دونوں امریکی سیاسی پارٹیوں کے ارکان بلکہ امریکی اتّحادیوں میں اضطراب پھیل رہا ہے۔
اخبار کہتاہے کہ یہ لوگ جب ٹی وی پراپنے وطن سے سینکڑوں یا ہزاروں میل دُور امریکی کارندوں کے ہاتھوں ایسے حملوں کے مناظر دیکھتے ہیں، تو اُنہیں وحشت ہوتی ہے۔ اور اُن کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان حملوں کا کوئی قانونی جواز ہے ۔ اور یہ کہ اس فہرست اور ان حملوں کو کیوں خُفیہ رکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ طویل وقتی نقطہء نظر سے عوام سے پوشیدہ اس قسم کی لڑائی شایدامریکی مفادات کو فائدے سے زیادہ نُقصان پہنچاتی ہو۔ اخبار کہتا ہے کہ اُسے ان میں سے بعض وسوسے بے بُنیاد لگتے ہیں۔ لیکن ڈرون حملوں کے وسائل اور مقاصد اوراُن اقدامات پر زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، جن کےذریعے ان کونظام کا حصّہ بنانا مقصود ہے۔ جہاں تک روایتی میدان جنگ سے باہر امریکی ڈرون طیاروں کے استعمال کا تعلّق ہے۔یعنی پاکستان، یمن، اورصومالیہ ، تو اُس پر اخبار کا کہنا ہے کہ وُہ اس سے پہلے کہہ چُکا ہے کہ یہ استعمال ملکی اور بین الاقوامی معیاروں پرپورا اترتا ہے۔2001 میں کانگریس نے القاعدہ کے خلاف جنگ کا اختیار دے دیا تھا۔اور بین الاقوامی قانون کے تحت امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وُہ مادر وطن پر پاکستان اور یمن میں القاعدہ کی فوجوں کے حملوں کا جواب دے۔
اخبار کہتا ہے کہ یمن اور صومالیہ کی حکومتیں اور ایک حد تک پاکستان کی حکومت ان حملوں کی منظوری دے چُکی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اخبار کا یہ بھی خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ کا ڈرون حملوں پر بڑھتا ہوا انحصارتشویش طلب بات ہے۔ ڈرون حملوں سے لوگوں میں عداوت کے جذبات اُبھرتے ہیں،اور اسی کے پیش نظر حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان کے خلاف ڈرون حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اخبار کا ماننا ہے کہ صدر کو بعض حالات میں کسی غیر متوقع جگہ فوری خطرے کے خلاف فوری قدم اُٹھانے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ لیکن دنیا بھر کے عسکریت پسندوں کے خلاف خُفیہ ڈرون حملوں کو اس نظام کا حصّہ بنانا امریکی مفادات کے منافی ہے اور بالآخر ناقابل دفاع بھی۔
ایری زونا ری پبلک
ایری زونا ری پبلک اخبار کہتا ہے کہ تین دن تک ہری کین سینڈی کی ابتلاء کے بعددونوں امریکی صدارتی امید وار اپنی اپنی انتخابی مُہم میں پھر سے جُت گئے ہیں۔ اور اس مہم کے آخری چار روز اشتہارات اور ایک دوسرے پر تنقیدی حملو ں کی وُہی بھرمار جاری ہے، اسی بیچ واشنگٹن پوسٹ اے بی سی کے تازہ تریں استصواب کے مطابق قومی سطح پر اور اور سخت مقابلے والی ریاستوں میں دونوں امیدواروں کے درمیان جو فرق رہتا ہے۔ وُہ اعشاریہ سے بھی کم ہے۔
صدر اوباما کی حمایت میں ایک حیران کُن اضافہ نیو یارک کے نہائت بارسوخ مئیر مائیکل بلُوم برگ کا ہے ۔ جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا ، کہ وُہ غیر جانب دار رہیں گے۔ اُدھر اوباما کے انتخابی کیمپ نےسابق وزیر خارجہ کولن پاؤل کی طرف سے اوباما کی غیر مشروط حمایت کی ٹی وی پر خوب تشہیر کی ہے۔
ایری زونا ری پبلک کہتا ہے کہ اس سے پہلے صدر اوباما نے سینڈی طوفان کے دوران جس کار کردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی بھی تعریف کرنے والوں میں نیو جرسی کے گورنر کرس کرسٹی اور ورجینیا کے گورنر رابرٹ میکڈانل شامل ہیں، جو دونوںری پبلکن اور مٹ رامنی کے حامی ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل
امریکہ میں ہفتے کی رات سے رواں سال کےلئے دن کی روشنی کی بچت کا خاتمہ ہو جائے گا اور تمام گھڑیوں کی سُوئیاں ایک گھنٹے پیچھے کر دی جائیں گی۔
اخبار وال سٹریٹ جرنل میں پروفیسر سپینسر بن زاف کے ایک کالم کے مطابق اس کی روایت 225 سال قبل بینجمن فرینکلن نے ڈالی تھی۔ جس کا کہنا تھا کہ لوگ گرمیوں میں صبح کی روشنی کو سو کر ضائع کر دیتے ہیں اوررات کو روشنی کے لئے موم بتی جلاتے ہیں۔ اور اس کی منطق یہ تھی کہ اگر لوگ اپنا معمول ایک گھنٹہ آگے بڑھائیں تو وُہ توانائی کی بچت کر سکتے ہیں۔چونکہ انسانی فطرت میں کاہلی شامل ہے، اس لئےکوئی ایک گھنٹہ جلد اُٹھنے کو تیار نہیں ہوتا،جب تک اُسے مجبور نہ کیا جائے۔ چنانچہ دو عالمی جنگوں کے بُحران کے دوران دُنیا بھر میں حکومتوں نے دن کی روشنی کےبچانے کے وقت کی یہ چال اپنائی اورگھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دیں۔
واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ یمن میں جٕس پہلے امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کا ایک لیڈر اور اُس کے پانچ ساتھی ہلاک کئے گئے تھے، اُس کو اب دس سال ہو چُکے ہیں۔ لیکن اُس کے بعد سے نشانہ باندھ کر، چار سو سے زیادہ ڈرون حملے پاکستان،یمن اور صومالیہ میں کیے جاچکے ہیں ۔یہ وُہ ملک ہیں جہاں امریکہ کوئی روائتی جنگ نہیں لڑ رہا، اور جہاں اخبار کے بقول لگ بھگ تین ہزار افراد ان حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں اور جن میں سے عام شہریوں کی تعداد بیسیوں بلکہ شاید سینکڑوں تک جا تی ہے، اور ایسے میں جب اوباما انتظامیہ افغانستان میں اپنے فوجی مشن کی بساط لپیٹ رہی ہے، اُس کا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو ہلاک کرنا یا زندہ پکڑنا ہے۔ اُن لوگوں کی فہرست سالہا سال تک برابر مرتّب ہوتی رہے گی۔ جس پر اخبار کے بقول نہ صرف دونوں امریکی سیاسی پارٹیوں کے ارکان بلکہ امریکی اتّحادیوں میں اضطراب پھیل رہا ہے۔
اخبار کہتاہے کہ یہ لوگ جب ٹی وی پراپنے وطن سے سینکڑوں یا ہزاروں میل دُور امریکی کارندوں کے ہاتھوں ایسے حملوں کے مناظر دیکھتے ہیں، تو اُنہیں وحشت ہوتی ہے۔ اور اُن کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان حملوں کا کوئی قانونی جواز ہے ۔ اور یہ کہ اس فہرست اور ان حملوں کو کیوں خُفیہ رکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ طویل وقتی نقطہء نظر سے عوام سے پوشیدہ اس قسم کی لڑائی شایدامریکی مفادات کو فائدے سے زیادہ نُقصان پہنچاتی ہو۔ اخبار کہتا ہے کہ اُسے ان میں سے بعض وسوسے بے بُنیاد لگتے ہیں۔ لیکن ڈرون حملوں کے وسائل اور مقاصد اوراُن اقدامات پر زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، جن کےذریعے ان کونظام کا حصّہ بنانا مقصود ہے۔ جہاں تک روایتی میدان جنگ سے باہر امریکی ڈرون طیاروں کے استعمال کا تعلّق ہے۔یعنی پاکستان، یمن، اورصومالیہ ، تو اُس پر اخبار کا کہنا ہے کہ وُہ اس سے پہلے کہہ چُکا ہے کہ یہ استعمال ملکی اور بین الاقوامی معیاروں پرپورا اترتا ہے۔2001 میں کانگریس نے القاعدہ کے خلاف جنگ کا اختیار دے دیا تھا۔اور بین الاقوامی قانون کے تحت امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وُہ مادر وطن پر پاکستان اور یمن میں القاعدہ کی فوجوں کے حملوں کا جواب دے۔
اخبار کہتا ہے کہ یمن اور صومالیہ کی حکومتیں اور ایک حد تک پاکستان کی حکومت ان حملوں کی منظوری دے چُکی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اخبار کا یہ بھی خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ کا ڈرون حملوں پر بڑھتا ہوا انحصارتشویش طلب بات ہے۔ ڈرون حملوں سے لوگوں میں عداوت کے جذبات اُبھرتے ہیں،اور اسی کے پیش نظر حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان کے خلاف ڈرون حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اخبار کا ماننا ہے کہ صدر کو بعض حالات میں کسی غیر متوقع جگہ فوری خطرے کے خلاف فوری قدم اُٹھانے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ لیکن دنیا بھر کے عسکریت پسندوں کے خلاف خُفیہ ڈرون حملوں کو اس نظام کا حصّہ بنانا امریکی مفادات کے منافی ہے اور بالآخر ناقابل دفاع بھی۔
ایری زونا ری پبلک
ایری زونا ری پبلک اخبار کہتا ہے کہ تین دن تک ہری کین سینڈی کی ابتلاء کے بعددونوں امریکی صدارتی امید وار اپنی اپنی انتخابی مُہم میں پھر سے جُت گئے ہیں۔ اور اس مہم کے آخری چار روز اشتہارات اور ایک دوسرے پر تنقیدی حملو ں کی وُہی بھرمار جاری ہے، اسی بیچ واشنگٹن پوسٹ اے بی سی کے تازہ تریں استصواب کے مطابق قومی سطح پر اور اور سخت مقابلے والی ریاستوں میں دونوں امیدواروں کے درمیان جو فرق رہتا ہے۔ وُہ اعشاریہ سے بھی کم ہے۔
صدر اوباما کی حمایت میں ایک حیران کُن اضافہ نیو یارک کے نہائت بارسوخ مئیر مائیکل بلُوم برگ کا ہے ۔ جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا ، کہ وُہ غیر جانب دار رہیں گے۔ اُدھر اوباما کے انتخابی کیمپ نےسابق وزیر خارجہ کولن پاؤل کی طرف سے اوباما کی غیر مشروط حمایت کی ٹی وی پر خوب تشہیر کی ہے۔
ایری زونا ری پبلک کہتا ہے کہ اس سے پہلے صدر اوباما نے سینڈی طوفان کے دوران جس کار کردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی بھی تعریف کرنے والوں میں نیو جرسی کے گورنر کرس کرسٹی اور ورجینیا کے گورنر رابرٹ میکڈانل شامل ہیں، جو دونوںری پبلکن اور مٹ رامنی کے حامی ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل
امریکہ میں ہفتے کی رات سے رواں سال کےلئے دن کی روشنی کی بچت کا خاتمہ ہو جائے گا اور تمام گھڑیوں کی سُوئیاں ایک گھنٹے پیچھے کر دی جائیں گی۔
اخبار وال سٹریٹ جرنل میں پروفیسر سپینسر بن زاف کے ایک کالم کے مطابق اس کی روایت 225 سال قبل بینجمن فرینکلن نے ڈالی تھی۔ جس کا کہنا تھا کہ لوگ گرمیوں میں صبح کی روشنی کو سو کر ضائع کر دیتے ہیں اوررات کو روشنی کے لئے موم بتی جلاتے ہیں۔ اور اس کی منطق یہ تھی کہ اگر لوگ اپنا معمول ایک گھنٹہ آگے بڑھائیں تو وُہ توانائی کی بچت کر سکتے ہیں۔چونکہ انسانی فطرت میں کاہلی شامل ہے، اس لئےکوئی ایک گھنٹہ جلد اُٹھنے کو تیار نہیں ہوتا،جب تک اُسے مجبور نہ کیا جائے۔ چنانچہ دو عالمی جنگوں کے بُحران کے دوران دُنیا بھر میں حکومتوں نے دن کی روشنی کےبچانے کے وقت کی یہ چال اپنائی اورگھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دیں۔