|
پاسداران انقلاب کے ایک سینئر جنرل نے جمعرات کو دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا تو وہ بھی اسرائیل کی نیوکلیئر سائٹس کو نشانہ بنائیں گے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران اسرائیل پر اپنے حالیہ غیر معمولی حملے کے ردعمل کی توقع کر رہا ہے۔
اسرائیل کے فوجی سربراہ نے حال ہی میں ایرانی فضائی حملے کا جواب دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کب اور کہاں جوابی کارروائی کرے گا۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے جوہری تحفظ اور سلامتی کے سربراہ حق طلب نے کہا ہے کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر کسی بھی حملے کا یقینی طور پر جواب دیا جائے گا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے حق طلب کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر اسرائیل ہمارے جوہری مراکز اور تنصیبات پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اسے بھی یقیناً ہمارے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس میں اسرائیلی جوہری تنصیبات کو جدید ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جائے گا۔
جوہری تنصیبات پر حملہ ہوا تو جوہری پالیسی پر نظرثانی کریں گے
ایرانی پاسداران انقلاب کے جوہری تحفظ اور سلامتی کے سربراہ، جنرل حق طلب کا کہنا ہے کہ مقررہ اہداف کی مکمل تباہی کے لیے ہمارے ہاتھ طاقت ور میزائلوں کے بٹن پر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کا خطرہ، تہران کو اپنی جوہری پالیسیوں اور تحفظات پر نظرثانی اور ان سے انحراف پر مجبور کر سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔
ایران نے ہمیشہ یہ إصرار کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر پرامن اور سویلین مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہتا۔ لیکن جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے ماہرین یہ کہہ چکے ہیں کہ ایران نے جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے بنیادی عنصر یورینیم کی افزودگی میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے اور وہ جلد ہی جوہری بم کی سطح کی افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2019 میں کہا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اسلام ان کے استعمال سے روکتا ہے۔
کوئی ممکنہ حملہ واشنگٹن میں بھی تشویش کا باعث ہے ، ایران اسرائیل کشیدگی پر بات کرتے ہوئے ڈیموکریٹ کانگریس مین راجہ کرشنا مورتی نے کہا کہ یہ اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ ایرانی حملوں پر کیا ردِعمل ظاہرکرتا ہے انہوں نے وائس آف امریکہ کی صبا شاہ خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسٔلے کےحل کے لئے تمام فریقوں کو مزاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔
اسرائیل پر حملے کی قیادت کرنے والے پاسداران انقلاب کے ایرو اسپیس یونٹ کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ نے بھی جمعرات کو کہا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر حملے میں صرف پرانے ہتھیار اور کم سے کم طاقت کا استعمال کیا ہے۔ اور کم طاقت کے استعمال سے ہم نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پر قابو پایا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے حق طالب کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر اسرائیل ہمارے جوہری مراکز اور تنصیبات پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اسے بھی یقیناً ہمارے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس میں اسرائیلی جوہری تنصیبات کو جدید ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جائے گا۔
ایران اسرائیل کشیدگی پر بات کرتے ہوئے ڈیموکریٹ کانگریس مین راجہ کرشنا مورتی نے کہا کہ یہ اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ ایرانی حملوں پر کیا ردِعمل ظاہرکرتا ہے انہوں نے وائس آف امریکہ کی صبا شاہ خان سے بات کرتے ہوئے کہ امسٔلے کےحل کے لئے تمام فریقوں کو مزاکرات کی میز پر آنا چاہیے ۔
ایران کی جوہری تنصیبات جو علم میں ہیں
ایران کی معلوم جوہری تنصیبات نطنز اور فردو میں ہیں جب کہ اس کا واحد جوہری بجلی گھر بو شہر میں قائم ہے۔
حق طالب نے کہا ہے کہ ایران نے اسرائیل کے جوہری مراکز کی شناخت کر لی ہے اور اس کے پاس تمام اہداف کی ضروری معلومات موجود ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایرانی جوہری تنصیبات اور سائنس دانوں پر حملے ہو چکے ہیں
ایران حالیہ برسوں میں اپنی جوہری تنصیبات پر تخریب کاری کے حملوں اور اپنے جوہری سائنس دانوں کے قتل کا الزام بھی اسرائیل پر لگاتا رہا ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام میں نمایاں پیش رفت کو روکنے کے لیے اس پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ جن میں نرمی کے لیے ایران نے امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدہ کیا تھا جس میں ایران نے یورینیم کی افزودگی کو نمایاں طور پر کم کرنے اور اپنی جوہری تنصیبات کے مسلسل معائنے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے نکال کر اپنے ملک کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں دوبارہ سخت کر دی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسرائیل تحمل سے کام لے
امریکہ سمیت دنیا کے زیادہ تر رہنما اسرائیل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ تحمل سے کام لے کیونکہ جوابی کارروائی کی صورت میں جنگ کا دائرہ پھیلنے کا خدشہ ہے۔کیونکہ اسرائیل حماس جنگ میں اب لبنان کی حزب اللہ اور یمن کے حوثی باغی بھی شامل ہو چکے ہیں۔ ان دونوں عسکری تنظیموں کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے۔
گزشتہ ہفتے ایران نے اپنی سرزمین سے اسرائیل پر فضائی حملہ، یکم اپریل کو دمشق میں اپنے سفارت خانے پر کیے گئے حملے کے جواب میں کیا تھا جس میں دو اعلیٰ فوجی عہدے داروں سمیت پاسداران انقلاب کے سات ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)