ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاری جانی نے کہا ہے کہ وکی لیکس میں شائع ہونے والے مواد کا ذمہ دار امریکہ کو ٹہرایا جانا چاہیے۔
ہفتے کے روز ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت کاری میں جاسوسی سمیت کئی اور غیر سفارتی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہ امریکہ کو اپنے ان سفارکاروں کے عمل کی وضاحت کرنی چاہیے جن کے نام وکی لیکس پر شائع ہونے والی دستاویزات میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک کو بھی ان انکشافات کا ذمہ دار ٹہرایا جانا چاہیے ، تاہم انہوں نےملکوں کے نام نہیں بتائے۔
نومبر میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے وکی لیکس پر خفیہ سفارتی مراسلوں کے افشا کو مذمت کی تھی۔ ان حساس سفارتی کیبلز کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ امریکہ ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کے لیے اقدامات کررہاہے جو ان دستاویزات کی چوری کے ذمہ دار ہیں۔
لاری جانی نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہ یہ ملک کے قومی مفادات کا معاملہ ہے اوریہ اس کا حق ہے۔
منگل کے روز اسی طرح کے تبصرے ایران کے اعلیٰ جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی نے بھی کیے تھے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ تہران دنیا کی چھ طاقتوں کے ساتھ جنوری میں ترکی میں ہونے والے مذاکرات میں اپنے جوہری حق پر کوئی سودا نہیں کرے گا۔